حضرت یوسفؑ کا ابتدائی خواب

جب دل کے چراغ ایمان سے روشن ہوں، تو خواب صرف نیند کے مناظر نہیں رہتے وہ روح کے آئینے بن جاتے ہیں، جن میں تقدیر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا پہلا خواب کوئی عام تصور نہ تھا، بلکہ وہ ربانی پیغام تھا جس نے ایک پوری امت کی تاریخ بدل دی۔ یہ سبق ہمیں اُن لمحوں میں لے جاتا ہے جب خواب، حسد، محبت اور بصیرت ایک ساتھ انسانی زندگی کی کہانی بننے لگتے ہیں۔

حضرت اسحاقؑ کی وفات کے بعد حضرت یعقوبؑ سرزمینِ کنعان میں سکونت پذیر رہے۔ اُن کے بیٹے حضرت یوسفؑ جب سترہ برس کے ہوئے تو اپنے بھائیوں کے ساتھ چراگاہوں میں مال مویشی چرانے لگے۔ حضرت یوسفؑ ان کی نگرانی کرتے اور جو کچھ خلافِ اخلاق باتیں دیکھتے، اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو جا کر بتاتے۔

حضرت یعقوبؑ کو حضرت یوسفؑ سے گہری محبت تھی، کیونکہ وہ اُن کی بڑھاپے کی اولاد تھے۔ اسی محبت کے اظہار کے طور پر حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسفؑ کو ایک خوبصورت، خاص خلعت سلوایا۔

یہ معاملہ بھائیوں کی نگاہوں میں چبھنے لگا۔ انہیں یوں محسوس ہوا کہ والد ان سے بڑھ کر یوسفؑ سے محبت کرتے ہیں۔ اس احساس نے اُن کے دلوں میں حسد اور دوری کی بنیاد ڈال دی۔ وہ نہ صرف یوسفؑ سے نفرت کرنے لگے بلکہ رسم و رواداری بھی ترک کر دی۔

اسی ماحول میں ایک رات حضرت یوسفؑ نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ایک ایسا خواب جس نے آنے والے وقتوں کی جھلک ان پر واضح کی۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے خوش دلی سے کہا: “بھائیو! سنو میں نے کیسا خواب دیکھا ہے!” پھر بیان فرمایا: “ہم سب کھیت میں گندم کی بالیاں کاٹ کر گٹھے باندھ رہے تھے۔ میرا گٹھا سیدھا کھڑا ہو گیا، اور تم سب کے گٹھے میرے گٹھے کے گرد آ کر سجدہ کرنے لگے۔”

اس کے بعد ایک اور خواب: “میں نے دیکھا سورج، چاند، اور گیارہ ستارے میرے سامنے جھک کر سجدہ کر رہے ہیں۔”

جب حضرت یوسفؑ نے یہ خواب حضرت یعقوبؑ کو سنایا تو وہ بظاہر ناراض ہو گئے۔ فرمایا: “لاحول ولاقوۃ! کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں، تمہاری والدہ، اور تمہارے بھائی سب تمہیں سجدہ کریں گے؟” لیکن حقیقت یہ تھی کہ حضرت یعقوبؑ اس خواب کی گہرائی کو سمجھ چکے تھے، اور اُس کے اثر سے اپنے دل کو آزاد نہ کر سکے۔


شیخ فخرالدین عراقی فرماتے ہیں

ایں خواب نیست، نَفَسِ راز داں ست در خلوتِ دل، نورِ جان ست

تشریح:
شیخ فخرالدین عراقیؒ فرماتے ہیں کہ یہ خواب ایک عام خیال یا منظر نہیں، بلکہ اس میں ایک راز کی سانس چھپی ہوئی ہے وہ راز جو صرف دل کی خلوت میں، نور کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا خواب بھی اسی طرح ایک خاموش پیغام تھا، جو اُن کے باطن میں اُتر کر مستقبل کی روشنی کو روشن کر رہا تھا۔ وہ خواب جسے دنیا نے ابتدا میں معمولی سمجھا، دراصل ایک ایسی کہانی کی پہلی سطر تھی جس کے صفحات پر حکمت، صبر، اور نجات کے رنگ رقم ہونے تھے۔


نتائج:

خواب کبھی کبھار ربانی اشارہ ہوتے ہیں، جن میں آئندہ کا پیغام چھپا ہوتا ہے۔
والدین کی محبت اگر ظاہر ہو، تو وہ بعض اوقات اولاد کے درمیان حسد کا باعث بن سکتی ہے۔
حسد تعلقات کو کمزور کرتا ہے اور برکت کو زائل کر دیتا ہے۔
سچے خواب انسان کے مقدر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ خواب فقط منظر نہیں، پیغام ہوتے ہیں۔ اور بعض خواب ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کا یہ خواب نہ صرف اُن کی عظمت کی تمہید تھا، بلکہ ایک ایسے سفر کا آغاز تھا جس میں آزمائش، جدائی، اور بالآخر سربلندی مقدر تھی۔


درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔