آزمائشوں میں ثابت قدمی

جب انسان دنیا کی چمک میں کھو جائے، اور دل مال و زر کی آرائشوں میں الجھ جائے، جب آزمائشیں چاروں طرف سے نازل ہوں، اور راہیں تنگ پڑ جائیں، تب وہی بندہ ثابت قدم رہتا ہے جس کا دل ربّ پر مطمئن ہو، اور جو اپنے ربّ کے ہر فیصلے پر راضی ہو کر خاموشی کو بندگی کا لباس بنائے۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی ایسی ہی مثال ہے، جہاں ہر تکلیف نے اُن کے صبر کو آزمایا، ہر دشمنی نے اُن کے حلم کا امتحان لیا، اور ہر محرومی اُن کے توکل کی گہرائی کو نمایاں کیا۔

مال و دنیا کے آزمائشی مناظر

حضرت داؤدؑ نے اپنے ساتھیوں سمیت ایک ایسے مال دار شخص نابال سے خیر کی امید رکھی، جس پر وہ پہلے ہی پہاڑوں میں حفاظت و بھلائی کا احسان کر چکے تھے۔ اُن کے ساتھیوں نے اُس کے چرواہوں کو نقصان سے بچایا، اور اُس کے مال کی نگہبانی کی، بغیر کسی لالچ یا بدلے کے۔ یہ درخواست نہ مانگنے کے لہجے میں تھی، بلکہ شکر کے جواب میں صلہ کی امید تھی۔

مگر نابال نے جواب میں بدتمیزی اختیار کی، نہ احسان پہ شکر ادا کیا، نہ نرمی سے بات کی، بلکہ انکار میں تکبر اور زبان میں اہانت رکھ کر داؤدؑ کی عزت کا خیال بھی نہ رکھا۔ یہ سن کر حضرت داؤدؑ کے دل میں غضب کی چنگاری جاگی، اور وہ اُس گستاخی کے ردعمل میں سخت اقدام کی طرف بڑھنے لگے۔

لیکن عین اُس وقت، ربّ کریم نے ایک عقلمند، بردبار اور نیک دل خاتون کو وسیلہ بنایا۔ وہ ابیجیل تھی، جو نابال کی زوجہ تھی، مگر اُس کی عقل، نرمی، اور زبان کی حکمت اُس کے شوہر کی سخت دلی سے بالکل مختلف تھی۔ اُس نے داؤدؑ کے راستے میں حاضر ہو کر عاجزی سے سر جھکایا، نرمی سے کلام کیا، اور سخاوت کے ساتھ معذرت پیش کی۔

اُس کی زبان میں ربّ کا خوف تھا، دل میں اخلاص، اور چہرے پر حلم کا نور۔ اُس نے نہ صرف حضرت داؤدؑ کے غصے کو روکا، بلکہ اُس نے ایک بڑے فتنہ کو ٹھنڈا کر دی اور داؤدؑ نے اسی لمحے اپنا ارادہ بدل دیا۔


نرمی، حکمت، اور صبر

ابیجیل کی نرمی، اس کی حکمت اور اُس کے لب و لہجے کی وقار نے حضرت داؤدؑ کے دل کو چھو لیا۔ اُس کی باتوں میں دنیاوی عقل نہیں، بلکہ وہ نور تھا جو ربّ کے ذکر سے اُبھرتا ہے، اور وہ یاد دہانی تھی جو اکثر دل آزمائش کی گھڑی میں بھول جاتے ہیں۔ ابیجیل نے حضرت داؤدؑ کو وہ سچ یاد دلایا جو ہر نبی، ولی اور صابر دل کو اختیار کرنا چاہیے کہ اصل فیصلے اللہ ربّ العزت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، اور جو اُس پر توکل کرتا ہے، وہ جلدی سے کوئی ناحق اقدام نہیں کرتا، نہ جذبات میں آ کر عدل سے ہٹتا ہے، کیونکہ ربّ خود اپنے بندے کا انصاف کرتا ہے، اور مظلوم کے لیے خود کافی ہے۔

حضرت داؤدؑ نے جب یہ کلمات سنے، اور ابیجیل کے وجود سے اُترتی حکمت کو محسوس کیا، تو دل نرم پڑ گیا، قدم رک گئے، اور زبان سے وہ جملہ ادا ہوا جو عفو کی معراج بن گیا۔ حضرت داؤدؑ نے فرمایا:
“اگر تُو نہ آتی، تو میں آج ناحق خون بہا بیٹھتا۔”

اور پھر اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، کہ اُس نے بروقت ایک ایسی عقل مند کو بھیجا جو فتنہ کو بندگی میں بدل گئی، اور غصے کو رضا میں بدل دیا۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی گواہی بن گیا کہ نرمی وہ روشنی ہے جو سخت ترین فیصلے کو موڑ سکتی ہے، اور حکمت وہ تلوار ہے جو بغیر کاٹے دل کو جیت لیتی ہے۔


خلوت کی پناہ میں بندگی

حضرت داؤدؑ کو ربّ نے جہاں آزمائش میں ڈالا، وہیں اُنہیں تنہائی کا ذائقہ بھی عطا فرمایا۔ وہ تنہائی جو بظاہر بیابانوں کی خاموشی، پہاڑوں کی بلندیوں، اور اجنبی بستیوں کی اجنبی فضا میں چھپی ہوئی تھی، لیکن دراصل وہ تنہائی ربّ کے خاص قرب کی تمہید بن رہی تھی۔ وہ جگہیں جہاں دنیا کسی کو پناہ نہیں دیتی، حضرت داؤدؑ کے لیے عبادت کی چادر بن گئیں، وہ لمحات جو لوگوں کے لیے مایوسی ہوتے ہیں، داؤدؑ کے لیے ذکر کی راتیں بن گئیں، اور وہ راستے جن پر تنہا چلنا مشکل ہوتا ہے، وہ حضرت داؤدؑ کے لیے قربِ الٰہی کے زینے بن گئے۔

حضرت داؤدؑ نے اس خلوت کو شکوہ کا عنوان نہ بنایا، نہ تھکن کو اپنی روح پر طاری کیا، بلکہ ہر لمحے کو ربّ کی رضا میں ڈھالا، ہر سکوت کو دعا میں بدل دیا، اور ہر بےبسی کو تسلیم و رضا کی زبان عطا کی۔ یہ وہ گھڑیاں تھیں جب اُن کا دل ربّ کے ذکر سے معمور تھا، اور اُن کا وجود ظاہری تنہائی میں چھپا ہوا، مگر باطنی حضوری میں گم ہو چکا تھا۔ یہی وہ خلوت تھی جس نے حضرت داؤدؑ کے سجدوں کو آسمان کے قریب کر دیا، اور اُن کے صبر کو نور کی چادر میں لپیٹ دیا۔


خاموشی کی فتح

حضرت داؤدؑ کے دشمن بڑھتے گئے، اُن کے خلاف سازشیں بُنتے رہے، ان پر الزامات لگاتے رہے، اُن کے راستے بند کرتے رہے، اور اُن کے لئے زمین کو تنگ کرتے گئے، مگر حضرت داؤدؑ کا جواب ہر بار ایک ہی رہا صبر، خاموشی، اور ربّ کی طرف رجوع۔ نہ اُنہوں نے آواز بلند کی، نہ بدلہ مانگا، اور نہ اُن کے ہاتھوں سے ظلم کا کوئی سایہ نکلا، بلکہ اُنہوں نے ربّ کی عدالت پر یقین رکھا، اور ہر بار خاموش ہو کر اپنے دل کو دعا کے سپرد کیا۔

کتنے ہی مواقع ایسے آئے جب داؤدؑ چاہتے تو دشمن پر غالب آ سکتے تھے، لیکن اُنہوں نے کنارہ کشی کو اختیار کیا، اور انتقام کو چھوڑ کر حلم کی روش پر چلتے رہے۔ داؤدؑ نے صرف ظاہری دشمنی سے نہیں بچا، بلکہ اپنے دل کو بھی بغض، غصے اور کینہ سے پاک رکھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل دشمنی وہ ہے جو دل میں بس جائے، اور اصل فتح وہ ہے جو نفس کو معاف کرنا سکھا دے۔

حضرت داؤدؑ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہر وار کا جواب دینا فرض نہیں ہوتا، اور ہر مقابلہ جیتنا اصل کامیابی نہیں، بلکہ کبھی کبھار خاموشی وہ قلعہ ہوتی ہے جس میں عزت بھی چھپی ہوتی ہے، فتح بھی، اور ربّ کی رضا بھی کیونکہ جو بندہ صبر اختیار کرتا ہے، وہ دراصل ربّ کے فیصلے پر راضی ہو کر اُس کی مدد کا منتظر بن جاتا ہے، اور یہی سکوت ہی اُس کی سب سے بڑی فتح بن جاتا ہے۔


سعدیؒ

صبر گر داری، ز ہر رنجِ زمانہ بگذری
بے سلاحِ حلم، مردِ کارزار آسودہ نیست

ترجمہ:
اگر تم صبر کر لو، تو زمانے کی ہر تکلیف سے گزر سکتے ہو۔ اور جو انسان حلم کے ہتھیار سے خالی ہو، وہ کبھی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

تشریح:
جو بندہ صبر اختیار کرتا ہے، وہ زمانے کی ہر آزمائش پر غالب آتا ہے، کیونکہ ربّ کی نصرت صابرین کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور جو شخص حلم و بردباری کے بغیر میدانِ زندگی میں اترے، وہ بے سلاح ہوتا ہے، کیونکہ اصل ہتھیار وہ ہے جو زبان کو قابو میں رکھے اور دل کو پاکیزہ رکھے۔ صبر وہ ڈھال ہے جس سے ربّ کے بندے ہر فتنے سے محفوظ رہتے ہیں۔


نتائج:

  1. جو دل دنیا کے مال پر بھروسا کرتا ہے، وہ آزمائشوں کی دہلیز پر کھڑا ہو جاتا ہے، کیونکہ جس دل میں دنیا کی چاہت بس جائے، وہاں سے ربّ کی رضا آہستہ آہستہ رخصت ہو جاتی ہے۔
  2. نرمی، اگر حکمت کے نور سے جُڑی ہو، تو وہ بڑے سے بڑے فتنہ کو تھام لیتی ہے، کیونکہ وہ دل جو ربّ کے خوف سے جھک جائے، وہ تلوار کے بغیر بھی غالب آتا ہے۔
  3. تنہائی اگر ربّ کے ذکر سے بھری ہو، تو وہ عبادت کی خلوت بن جاتی ہے، اور وہ جگہیں جنہیں دنیا ویران سمجھے، وہی مقامات بندگی کے محراب بن جاتے ہیں۔
  4. صبر وہ روشنی ہے جو دل کو انتقام کی تاریکی سے بچاتی ہے، اور خاموشی وہ ڈھال ہے جس میں ربّ کی رضا چھپی ہوتی ہے، کیونکہ سچ وہی ہوتا ہے جو سکوت کے پردے میں چمکتا ہے۔
  5. اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے، وہ کبھی نہیں ٹوٹتا، لیکن وہ اُنہی کے حق میں ظاہر ہوتا ہے جو آزمائش میں لغزش نہیں کھاتے، اور جو صبر سے ربّ کی نصرت

اختتامیہ
یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزمائش زمین کی زندگی کا لازمی باب ہے، مگر کامیابی اُنہی کے لیے مقدر کی جاتی ہے جو صبر کو اپنا زادِ راہ بنائیں، حکمت کو اپنی رہنمائی مانیں، اور اللہ ربّ العزت پر مکمل بھروسا رکھیں۔ حضرت داؤدؑ کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ وہ دل جو دنیا کی خواہش سے پاک ہو جائے اور ربّ کی رضا پر راضی ہو جائے، وہی دل انعاماتِ غیبی کا مستحق بنتا ہے۔ وہ چرواہا جو بیابانوں میں گمنامی کے ساتھ پھرتا رہا، وہی آخرکار ربّ کی بادشاہی کے وعدے کو پا گیا اور یہ وعدہ اُسے تلوار سے نہیں، طاقت سے نہیں، بلکہ صبر، درگزر، اور یقین کے راستے سے عطا ہوا، کیونکہ جو ربّ کے فیصلے پر راضی ہو جائے، ربّ اُسے وہ مقام دیتا ہے جو دنیا کے تختوں سے بلند ہوتا ہے۔