ابشالوم کی بغاوت اور پدرِ صابر کی آہیں
جب کسی خاندان کی دیواروں پر خاموشی کا سایہ چھا جائے، اور دلوں میں وہ فریاد دفن ہو جائے جو کبھی لبوں تک آ نہیں پاتی، تب تاریخ کے اوراق پر وہ لمحات رقم ہوتے ہیں جو صرف درد کا بیان نہیں، بلکہ آزمائش، حکمت، اور تقدیر کے فیصلوں کا آئینہ بن جاتے ہیں۔
ایسا وقت، جب کردار منہ موڑ لیتے ہیں، عدل خاموش ہو جاتا ہے، اور خامشی بولنے لگتی ہے۔ وہ لمحات جب گناہ صرف فرد کی لغزش نہیں ہوتا، بلکہ خاندانوں، نسلوں، اور سلطنتوں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ ایسے حالات میں صبر، فہم، برداشت اور حکمت کا دامن تھامے رکھنا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ ہر دل زخمی ہوتا ہے، ہر نگاہ شک میں ڈوبی ہوتی ہے، اور ہر خاموشی کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوتا ہے۔ لیکن وہی لمحے، جب انسان خود کو کمزور اور ٹوٹا ہوا محسوس کرتا ہے، دراصل وہی لمحے ہوتے ہیں جہاں ربّ کریم بندے کی نیت، ظرف، اور صبر کو آزماتا ہے تاکہ پردہ ظلم کے پیچھے چھپی روشنی کو آشکار کرے۔
ظلم، خاموشی اور عدل کی آزمائش
یہ قصہ ایک ایسے لمحے سے شروع ہوتا ہے جہاں دل میں پلنے والی ہوس، عقل پر غالب آتی ہے، اور خاندان کے پاکیزہ بندھن کو ایک ناپاک ارادے سے چیر ڈالتی ہے۔ حضرت داؤدؑ کی سلطنت میں ایک ایسا گھاؤ پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف ذاتی دکھ بن کر ابھرتا ہے بلکہ قوم کے ضمیر پر بھی بوجھ بن جاتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کا بڑا بیٹا امنون، جو اُن کی پہلی بیوی سے تھا، اپنی سوتیلی بہن تمر پر نگاہِ بد ڈال بیٹھتا ہے۔ یہ نگاہ محض خاموش تمنا نہیں بلکہ اندر ہی اندر ایک شیطانی خواہش میں بدل جاتی ہے۔ امنون، جو ولی عہد کہلاتا ہے، اپنی حیثیت اور دلی جذبات کی آمیزش سے ایک ایسا منصوبہ بناتا ہے جس میں نہ صرف عزت پامال ہوتی ہے بلکہ خاندان کا وقار بھی زمیں بوس ہو جاتا ہے۔
امنون بیمار بن کر بستر پر لیٹ جاتا ہے اور ایک مشورہ کار دوست کے ذریعے حضرت داؤدؑ سے درخواست کرواتا ہے کہ تمر اُسے کچھ کھانا اپنے ہاتھوں سے بنا کر دے۔ حضرت داؤدؑ، جو ہر باپ کی طرح اولاد کی تیمارداری پر خوش ہوتا ہے، نیت سے بے خبر، اجازت دے دیتے ہیں۔ تمر، اپنی سادگی، بہنوں والی ہمدردی، اور فرمانبرداری کے ساتھ امنون کے پاس آتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ خلوت میں آتی ہے، امنون اپنی اصل نیت کو ظاہر کرتا ہے اور نہایت ظالمانہ طور پر اُس پر زیادتی کرتا ہے۔
یہ ظلم فقط جسمانی نہ تھا، بلکہ یہ روح پر چڑھنے والا ایسا زخم تھا جو تمر کی آنکھوں سے خامشی میں ٹپکتا رہا۔ اور جب وہ ظلم سہہ چکی، تو امنون اُس سے نفرت کرنے لگا، اُس کو دھتکار کر نکال دیا گویا مظلوم کو سزا دی جا رہی ہو۔
تمر پھٹے دل کے ساتھ اپنے گھر جاتی ہے، کپڑے چاک کیے، سر پر خاک ڈالے، اور آنکھوں میں وہ درد لیے جو الفاظ میں ڈھل نہیں سکتا۔ حضرت داؤدؑ، جو باپ بھی تھے اور نبی بھی، اس واقعے پر شدید غم زدہ ہوتے ہیں، مگر خاموش رہتے ہیں۔ اُس خاموشی میں کئی معنی پوشیدہ ہیں شاید سلطنت کی مصلحت، شاید باپ کی کمزوری، یا شاید آزمائش کی وہ گھڑی جو رب کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔
ادھر ابشالوم، تمر کا سگا بھائی، یہ سب دیکھتا ہے، سنتا ہے، اور محسوس کرتا ہے، مگر اُس وقت کچھ نہیں کہتا۔ وہ صبر کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، مگر اس صبر کے نیچے انتقام کی ایک آگ سلگنے لگتی ہے، جو آنے والے وقت میں ایک پورے عہد کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
ابشالوم کا انتقام اور خاندان کی خونچکاں دراڑ
کبھی کبھی ظلم کے بعد خاموشی وہ زمین بن جاتی ہے جس میں فتنے کے بیج خاموشی سے اگنے لگتے ہیں۔ وہ بیج بظاہر نظر نہیں آتے، مگر اندر ہی اندر تناور درخت بننے لگتے ہیں جن کی شاخیں جب لہو میں بھیگ جائیں، تو خاندانی وحدت کے گلشن میں خزاں اتر آتی ہے۔ ابشالوم، تمر کا سگا بھائی، سب کچھ دیکھتا ہے، سب کچھ جانتا ہے، مگر اپنے لبوں پر قفل ڈال لیتا ہے۔ اس کی خاموشی احتجاج نہیں، بلکہ ایک منصوبہ ہے صبر کی چادر میں لپٹا ہوا انتقام۔
دو سال گزر جاتے ہیں۔ نہ امنون پر کوئی سزا نافذ ہوتی ہے، نہ عدل کا کوئی پیمانہ حرکت میں آتا ہے۔ ابشالوم کے دل میں وہ آتش فشاں جو ظلم کی پہلی گھڑی میں بیدار ہوا تھا، اب شعلہ بن کر دہکنے لگا ہے۔ وہ اپنے باطن میں انتقام کے نقشے بناتا ہے، اور بالآخر ایک دعوت کا بہانہ تراشتا ہے۔ سب کو بلایا جاتا ہے، ظاہری طور پر یہ محض بھائیوں کی محفل ہے، لیکن دل میں جو فیصلہ صادر ہو چکا ہے، وہ اس محفل کو لہو میں رنگ دینے والا ہے۔
دعوت کے دوران ابشالوم کے آدمی امنون پر حملہ کرتے ہیں، اور وہ وہیں قتل ہو جاتا ہے۔ خاندان لرز جاتا ہے، بادشاہ داؤدؑ کا دل دہل اٹھتا ہے، اور تمر کا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بار زخم صرف فرد کا نہیں، خاندان کا ہے، سلطنت کا ہے، تاریخ کا ہے۔ یہ محض ایک بھائی کا قتل نہیں تھا، بلکہ یہ اعتماد، عزت، اور خونی رشتے کا جنازہ تھا، جو نفرت کی آگ میں راکھ ہو گیا۔
ابشالوم خود اس قتل کے بعد ملک سے فرار ہو جاتا ہے، اور تین سال تک ایک اجنبی سرزمین میں جلاوطنی کی زندگی گزارتا ہے۔ مگر یہ جلاوطنی بھی ایک حکمت کا حصہ ہے وہ لوٹنے کے لئے دور گیا ہے، وہ صرف بدن سے دور ہوا ہے، مگر اس کا ارادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اب محض ایک بیٹا نہیں رہا، وہ فتنے کا پیکر بن چکا ہے، جس کی خاموشی اب بادشاہی کے لئے خطرہ ہے۔
یہی تھی وہ گھڑی جب خاندان میں خوں ریزی کی دراڑ پڑی، جو صرف ایک بیٹے کا انتقام نہ تھا، بلکہ اس عدل کی کوتاہی کا نتیجہ تھا جو وقت پر نہ پہنچا۔ جب عدل دیر کرے، تو انتقام خود کو عدل سمجھنے لگتا ہے، اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں خاندان کا خون، سلطنت کی پیشانی پر داغ بن جاتا ہے۔
ابشالوم کی واپسی اور سازش کا جال
تین سال کی خاموش جلاوطنی کے بعد، وہ بیٹا جس کے ہاتھوں خاندانی خون بہا، واپس آتا ہے، مگر اب اس کی واپسی صرف گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک نئی آزمائش کا آغاز ہے۔ ابشالوم نہ صرف نادم نظر آتا ہے بلکہ دل میں وہ تدبیر چھپا کر آتا ہے جو سلطنت کی بنیادوں کو ہلا دینے والی ہے۔
حضرت داؤدؑ، ایک باپ کی محبت کے تحت، اپنی رعایا اور اپنے دل کی مجبوری کے باعث، ابشالوم کو معاف کرتے ہیں، اور یروشلم میں اُسے بسنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مگر معافی کا یہ لمحہ، شفقت کا وہ سایہ، اب ایک فتنہ پرورش پانے لگتا ہے۔ ابشالوم وہ چہرہ ہے جو بظاہر باپ کا بیٹا ہے، مگر باطن میں تاج کا متلاشی ہے، اور اس کی آنکھیں اب باپ کے قدموں سے زیادہ تخت کی بلندی کو دیکھنے لگی ہیں۔
وہ دربار کے دروازوں پر کھڑا ہو جاتا ہے، ہر اُس شخص سے ملاقات کرتا ہے جو انصاف کا طلبگار ہوتا ہے، اور اُس سے نرمی، اپنائیت اور غمخواری سے بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: “اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو تمہیں فوری انصاف ملتا!” اس ایک جملے میں اُس نے رعایا کے دلوں میں عدل کا خواب جگایا، مگر اُس خواب کی تعبیر خود کو بنایا۔ آہستہ آہستہ، ایک ایک دل اُس کی گرفت میں آتا ہے، اور سلطنت کی دیواروں پر ایسے دراڑیں پڑنے لگتی ہیں جنہیں صرف فہمِ نبوت ہی دیکھ سکتا ہے۔
حضرت داؤدؑ سب کچھ محسوس کرتے ہیں، مگر خاموشی سے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر آزمائش کا وقت ہوتا ہے، اور ہر دل کا راز ایک دن ظاہر ہوتا ہے۔ ابشالوم اپنے سحر سے عوام کو اپنے گرد اکٹھا کر چکا ہوتا ہے، حتیٰ کہ وہ علانیہ بغاوت کا اعلان کرتا ہے، اور حبرون میں جا کر اپنے آپ کو بادشاہ کہلوانے لگتا ہے۔
یہ صرف بغاوت نہ تھی، یہ دلوں کی چوری تھی۔ وہ دل جو کبھی داؤدؑ کے لیے دھڑکتے تھے، اب ابشالوم کی جھوٹی مروت اور بناوٹی نرمی سے لبریز ہو چکے تھے۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قیادت محض تاج پہننے سے نہیں بنتی، بلکہ وہ صداقت، قربانی، اور حق کی بنیاد پر قائم رہتی ہے۔ اور جب قومیں صرف ظاہری حسن، زبان کی مٹھاس، اور وقتی ہمدردی کو قیادت سمجھنے لگیں، تو وہ فتنے کے دروازے خود کھولتی ہیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب ابشالوم کی سازشوں کا جال پورے یروشلم کے گرد تنے لگا، اور حضرت داؤدؑ کے لیے فیصلہ کرنے کا وقت آن پہنچا ایک ایسا فیصلہ جو صرف بادشاہی نہیں، بلکہ انسانیت، عدل، اور باپ کی محبت کے درمیان کیا جانا تھا۔
داؤدؑ کا صبر اور رب پر کامل توکل
جب بغاوت کا شور، بادشاہی کے ایوانوں سے بلند ہونے لگا، اور جب باپ کی چھاؤں سے نکل کر بیٹے نے تخت پر نظریں جما لیں، تب حضرت داؤدؑ نے وہ فیصلہ کیا جو صرف ایک نبی، ایک صابر، اور ایک رب پر کامل توکل رکھنے والا انسان ہی کر سکتا ہے۔ داؤدؑ نے جنگ کے بجائے شہر چھوڑنے کو بہتر جانا، تاکہ نہ رعایا کے خون سے گلیاں رنگین ہوں، نہ شہر فساد کا میدان بنے۔
یروشلیم، جو کبھی ان کے فتوحات کا مرکز رہا، اب ان کے قدموں تلے پگھلتا محسوس ہونے لگا۔ مگر حضرت داؤدؑ کے دل میں نہ مایوسی تھی، نہ انتقام کا جذبہ، بلکہ فقط رب پر بھروسہ، اور اُسی کی رضا میں رضا۔ انہوں نے اپنے عزیزوں اور وفادار ساتھیوں کو جمع کیا، اور یہ اعلان کیا کہ وہ شہر کو چھوڑ کر عارضی طور پر پیچھے ہٹ رہے ہیں، تاکہ امن باقی رہے اور ربِ جلیل کا فیصلہ نمایاں ہو۔
حضرت داؤدؑ اپنے جوتے پا برہنہ کرتا ہے، اور کوہِ زیتون کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ سر جھکا ہوا، دل میں سوز و گداز، اور لبوں پر دعا کی سرگوشی۔ ان کے قدموں میں نہ غرور تھا، نہ ہار، بلکہ فقر کی چادر اوڑھے، داؤدؑ اپنے رب تعالیٰ کے حضور اپنے مقام کو سونپتے ہوئے نکلے۔ داؤدؑ کا یہ طرزِ عمل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کبھی بعض فتوحات ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ صبر، حلم، اور حکمت سے حاصل کی جاتی ہیں۔
راستے میں کوہِ زیتون کے دامن میں حضرت داؤدؑ کا قافلہ گزرتا ہے، اور شہر کے در و دیوار داؤدؑ کی خاموشی کو دیکھ کر اداس ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب بادشاہ اپنے تخت کو چھوڑتا ہے، مگر عزت و وقار کو قائم رکھتا ہے۔ یروشلیم کو خون سے بچانے کے لیے، باپ نے شہر چھوڑا تاکہ آنے والے دنوں میں نہ صرف فتح نصیب ہو، بلکہ فتنے کا خاتمہ حکمت سے ہو۔ یہی توکل، یہی قربانی، اور یہی خاموشی ایک ایسی سلطنت کی روح ہے جو ظاہری تاج سے نہیں، بلکہ باطنی نور سے قائم ہوتی ہے۔
ایک باپ کی فریاد
جب فتنہ پختہ ہو چکا، جب رعایا کے دل جیت لیے گئے، جب بیٹے نے باپ کے تخت پر قدم رکھنے کی جسارت کی، تب وہ وقت آن پہنچا جس سے ایک نبی، ایک بادشاہ، اور سب سے بڑھ کر ایک باپ کی آزمائش مکمل ہوئی۔ جنگ ناگزیر ہو گئی، فوجیں میدان میں آ گئیں، مگر حضرت داؤدؑ کا دل، بادشاہت کے لئے نہیں دھڑک رہا تھا بلکہ وہ دل تو فقط اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے تڑپ رہا تھا۔
حضرت داؤدؑ نے اپنی فوج کو رخصت کرتے وقت صرف ایک بات فرمائی: “میرے بیٹے ابشالوم کے ساتھ نرمی کرنا۔” یہ الفاظ ایک باپ کے درد کا خلاصہ تھے، ایک ایسی محبت کی گواہی جو بغاوت سے مجروح تو ہو سکتی ہے، مگر ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ فتنہ جو سلطنت کو ہلا رہا تھا، اُس کے پیچھے ایک چہرہ تھا جو ایک بیٹے کا چہرہ جسے دیکھ کر ایک باپ کی آنکھیں کبھی نم ہو جاتی تھیں، اور دل سے دعا نکلتی تھی کہ وہ پلٹ آئے۔
لیکن تقدیر کے دفتر میں کچھ اور لکھا تھا۔ جنگ کے دوران ابشالوم ایک درخت کی شاخوں میں الجھ کر بےبس ہو گیا، اور اگرچہ حضرت داؤدؑ کی ہدایت تھی کہ اُسے زندہ چھوڑا جائے، مگر جنگ کی تلخیوں نے اُس کے دشمنوں کے ہاتھوں سے اُس کی جان لے لی۔ جب یہ خبر حضرت داؤدؑ تک پہنچی، تو ایک باپ کی فریاد آسمان تک بلند ہوئی۔
حضرت داؤدؑ روتے رہے، دہائی دیتے رہے، اور وہ درد بھری صدا جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے گونجتی رہے گی، ان کے لبوں سے نکلی:
“ابشالوم، اے میرے بیٹے! کاش میں تیرے بدلے مر جاتا! ابشالوم، اے میرے بیٹے، میرے بیٹے!”
یہ کوئی بادشاہ کا ماتم نہ تھا، یہ کسی نبی کا نوحہ نہ تھا، یہ ایک باپ کی وہ آہ تھی جو خون میں بھیگی ہوئی محبت سے نکلتی ہے محبت جو نافرمانی کے باوجود کم نہیں ہوتی، بغاوت کے باوجود ختم نہیں ہوتی، اور جسے ربِّ رحیم کی صفتِ رحمت کا عکس کہا جا سکتا ہے۔
مولانا رومیؓ
گر جان دلم بسوخت، کجا بودی تو؟
ای بوی وصالِ من، چرا بودی تو؟
ترجمہ:
اگر میرا دل اور جان جل کر خاک ہو گئے، تو تُو کہاں تھا؟
اے میری وصال کی خوشبو، تو کیوں میرے قریب نہ تھا؟
تشریح:
یہ اشعار ابشالوم جیسے بیٹے کے لئے ایک باپ کی فریاد کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ جس طرح مولانا رومؒ نے دردِ جدائی اور حسرتِ ملاقات کو بیان کیا ہے، اُسی طرح حضرت داؤدؑ نے بھی اپنے بیٹے ابشالوم کے لیے آخری لمحات میں یہی احساس ظاہر کیا۔ جب دل جلا، جب سلطنت لرز اٹھی، جب دعا کے ہاتھ اُٹھے اور آہیں آسمان کو چھونے لگیں، تب صرف ایک سوال تھا: “تو کہاں تھا؟” یہ اشعار اس دکھ کو آواز دیتے ہیں جو محبت میں فاصلوں سے جنم لیتا ہے، اور جو بغاوت کے پردے میں بھی ایک باپ کی رحمت کو خاموش نہیں کر سکتا۔
نتائج
- خاندانی فتنے کی شدت ہمیشہ اندرونی سکون کو تباہ کرتی ہے، اور اگر بروقت عدل نہ کیا جائے تو فتنے کا بیج ایک درخت بن کر پوری نسل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
- محبت اور عدل میں توازن ضروری ہے۔ اگر باپ بیٹے کو صرف محبت سے دیکھے اور عدل سے گریز کرے، تو وہ محبت بغاوت کی راہ ہم وار کر سکتی ہے۔
- قائد کا وقار اُس کے صبر، حلم، اور رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک میں ہوتا ہے، نہ کہ تخت اور تاج میں۔
- بغاوت کا انجام بظاہر فتح ہو سکتا ہے، مگر اندر سے وہ روح کی شکست ہوتی ہے، اور باپ کی آہوں سے زیادہ دردناک کوئی صدا نہیں ہوتی۔
- آزمائش کی گھڑیاں انسان کے باطن کو آشکار کرتی ہیں وہاں جہاں صرف رب کی رضا مقصود ہو، وہاں ہی صبر اور دعا معنی رکھتے ہیں۔
اختتامیہ
یہ سبق ہمیں نہ صرف ایک باپ اور بیٹے کے تعلقات کی گہرائی سے آشنا کرتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ خاندانوں کے فتنے سلطنتوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ابشالوم کا جرم صرف بغاوت نہ تھا، بلکہ اس کی بغاوت نے اُس چھت کو چیر ڈالا جس کے نیچے دعا، حلم، اور رحم کا سایہ تھا۔ حضرت داؤدؑ نے عدل سے خاموشی برتی، اور محبت سے نرمی کی مگر یہی خاموشی بعد میں ایک زخم بن گئی۔