ابلیس کی طرف سے مسیحؑ کی آزمائش
روحانیت کے سفر میں سب سے گہرا مرحلہ آزمائش کا ہوتا ہے۔ یہ وہ بیابانی لمحہ ہے جب کوئی نبی، کوئی عاشق، یا کوئی سالک خدا کے نور سے معمور ہو کر شیطان کے اندھیروں کا سامنا کرتا ہے۔ آزمائش دراصل وہ آئینہ ہے جس میں روح کی اصل تابانی جھلکتی ہے۔ جب دنیا کی خواہشیں، جسم کی کمزوری، اور اقتدار کی چکاچوند مل کر راستے میں کھڑی ہو جائیں، تب بندۂ حق کا جوابی کلام اُس کی اندرونی روشنی کا مظہر بن جاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی آزمائش وہ مقامِ فناء تھا جہاں خواہشِ نفس، بھوک، اقتدار، اور حفاظت کی آزمائشیں اُن پر آزمودہ ہوئیں، لیکن آپؑ ہر مرتبہ رب تعالیٰ کے کلام کے ذریعے ان تمام وسوسوں کو رد کرتے چلے گئے۔
آزمائش ، روح کی تراش
سیدنا حضرت عیسیٰؑ، روحِ خدائے اقدس سے سرشار، دریائے اُردن سے لوٹ کر اُس کی ہدایت سے کسی بیابان جگہ تشریف لے گئے۔ چالیس دن تک ابلیس آپؑ کا امتحان لینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ اِس دوران سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے کچھ بھی تو نہ کھایا۔
آخر کار سیدنا حضرت عیسیٰؑ کو بھوک لگی، تو ابلیس کہنے لگا: چوں کہ آپؑ ابنِ اللہ ہیں اور جان بچانا فرض ہے، اِس لئے حکم دیجئے کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں!“
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے جواب دیا: کلامُ اللہ میں لکھا ہے کہ ’انسان کی زندگی کا دار و مدار صرف کھانے پینے پر منحصر نہیں۔
یہ دیکھ کر ابلیس سیدنا حضرت عیسیٰؑ کو ایک اونچے پہاڑ پر لے گیا۔ دنیا جہان کی بادشاہیوں کی شان و شوکت پل بھر میں دکھا کر!
ابلیس سیدنا حضرت عیسیٰؑ سے کہنے لگا: مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جسے چاہوں، یہ سب کچھ دے دوں۔ یہ بادشاہیاں بھی، یہ شان و شوکت بھی۔ یہ سب کچھ آپؑ کا ہو سکتا ہے، بشرطیکہ آپؑ مجھے بس ایک سجدہ کر دیں۔“
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے جواب دیا: کلامُ اللہ میں لکھا رکھا ہے کہ ’تم اپنے خدا، ربُّ العزت ہی کو سجدہ کرو اور صرف اُسی کی عبادت کرو!”
پھر سیدنا حضرت عیسیٰؑ یروشلم میں بیتُ المَقدِس کے بلند ترین مقام پر پہنچا دئیے گئے۔
ابلیس سیدنا حضرت عیسیٰؑ سے کہا: چوں کہ آپؑ ابنِ اللہ ہیں، تو یہاں سے نیچے چھلانگ لگا دیجئے! آپؑ کو کچھ نہیں ہوگا! کیونکہ کلامُ اللہ میں لکھا ہوا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ آپؑ کی حفاظت کے لئے فرشتے مامور کرے گا۔ وہ آپؑ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے تاکہ کسی پتھر سے آپؑ کے پاؤں کو ضرر نہ پہنچے۔‘
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے جواب دیا: کلامُ اللہ میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ ’اپنے خدا، ربُّ العزت کے صبر کا کبھی امتحان مت لینا! جب ابلیس کا ہر حربہ ناکام ہو گیا، تو وہ اپنا سا منھ لے کر چلا گیا، سیدنا حضرت عیسیٰؑ پر دوبارہ حملہ آور ہونے کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں رہا۔
حضرت جامیؒ
گَر نبُودی امتحانِ عشق، کی دانستی مَرام؟
در دلِ صادق ہمیتابد شرر چون آفتاب
ترجمہ:
اگر عشق میں آزمائش نہ آتی، تو کون جانتا کہ دل میں کیا راز چھپے ہیں؟
یہی تو ہے صداقت کا پرکھنے والا لمحہ، جہاں سچ کی چمک سورج بن کر ظاہر ہوتی ہے۔
تشریح:
یہ شعر اُس روحانی امتحان کی طرف اشارہ ہے جس سے سیدنا حضرت عیسیٰؑ گزرے۔ اگر چالیس دن کی تنہائی نہ ہوتی، اگر ابلیس کی فریب کاری نہ ہوتی، تو وہ الوہی صداقت کیسے ظاہر ہوتی جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے کلام اور وفاداری میں چمکی؟ عشق میں وہی کامیاب ہوتا ہے جس کا دل آزمائش کے باوجود وفا پر قائم رہے جیسے حضرت عیسیٰؑ کا قائم تھا۔
نتائج
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی آزمائش یہ ثابت کرتی ہے کہ سچا روحانی اختیار ہمیشہ روح کی بالادستی سے ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ دنیاوی طاقت سے۔
- ابلیس کا ہر حربہ اُس وقت ناکام ہوتا ہے جب بندہ حق، رب تعالیٰ کے کلام کو اپنا ہتھیار بناتا ہے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ہر آزمائش کے جواب میں “کلامُ اللہ” سے دلیل دی جو ہر مومن کے لئے راستہ اور ڈھال دونوں ہے۔
- روحانی ترقی میں تنہائی، فاقہ، اور وسوسے اُس تربیت کا حصہ ہیں جو بندے کو ربِ کریم کے قریب کرتی ہے۔
5. ابلیس محض دنیاوی نفع دے سکتا ہے، مگر حقیقی نور اور سلامتی کا عطا کرنے والا صرف ربُّ العزت ہے۔
6. جو آزمائش میں صبر، ادب، اور وفاداری سے کھڑا رہے، وہی روحانی بادشاہی کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ ثابت قدم کھڑے رہے۔
اختتامیہ
آزمائش وہ خنجر ہے جو روح کی سطح کو چیر کر اُس کے باطن کا نور ظاہر کرتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی چالیس روزہ آزمائش، انسانیت کو یہ درس دیتی ہے کہ قربِ الٰہی کا راستہ ہمیشہ صبر، علم، اور دل کی ثابت قدمی سے گزرتا ہے۔ ابلیس کی ہر چمکدار پیشکش کو رد کرنا اُس چراغ کا کام ہے جو عشقِ الٰہی سے روشن ہو چکا ہو۔
حضرت عیسیٰؑ نے ثابت کیا کہ “ابنِ اللہ” ہونا کوئی دنیاوی خطاب نہیں، بلکہ بندگی، وفاداری، اور حق کی رہنمائی کا منصب ہے۔ اور جب دل حق کے ساتھ بندھا ہو، تو نہ پتھر سے ٹھوکر لگتی ہے، نہ تخت کی چمک بہکاتی ہے۔ یہی وہ مقامِ رضا ہے جہاں ابلیس مایوس ہو جاتا ہے، اور رب تعالیٰ کی بادشاہی دل میں اترتی ہے۔