اقتدارِ الٰہی کے لئے تعمید
جب زمین پر آزمائش کی گھڑیاں طویل ہو جائیں، اور بندگی کی راہیں کانٹوں سے بھر جائیں، جب دل تھکنے لگے، اور نگاہیں وعدوں کے پورے ہونے کی منتظر ہوں، تب اللہ ربّ العزت اپنی سنت کو ظاہر فرماتا ہے کہ عزت صرف اُسی کے اختیار میں ہے، اور حکومت صرف اُسی کی عطا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی کا یہ باب اُس وعدۂ ربانی کی تکمیل ہے، جو اُنہیں چراگاہ کی تنہائی میں چُنا گیا تھا، اور اب اُس انتخاب کا ظہور زمین کے اقتدار میں ہونے جا رہا ہے۔ یہ اقتدار نہ سازش کا نتیجہ ہے، نہ سازوسامان کی کامیابی، بلکہ ربّ العزت کی نصرت، بندے کی عاجزی، اور توکل کی روشنی سے نازل ہونے والی وہ تمکنت ہے، جو انسان کو تخت تک لے آتی ہے، مگر دل کو سجدے سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ حضرت داؤدؑ کی حیات میں اب وہ لمحہ آیا ہے جب صبر کا پھل پکا ہے، درگزر کا دروازہ کھلا ہے، اور ربّ تعالیٰ کی بادشاہی نے یروشلیم کے دروازوں پر قدم رکھ دیا ہے۔ اور یہ وہ بادشاہی ہے جو دنیا کو جھکانے کے لئے نہیں، بلکہ دلوں کو جگانے کے لیے اُتری ہے۔
ربِ جلیل کا وعدہ
تمام آزمائشوں، تنہائیوں، اور دشمنی کے تھپیڑوں کے باوجود، اللہ ربّ العزت نے حضرت داؤدؑ کو تنہا نہ چھوڑا۔ وہ ہر مشکل میں اُن کے ساتھ رہا، ہر سازش میں اُنہیں بچاتا رہا، اور اُن کے دل کو سکون، یقین اور تسلی عطا کرتا رہا۔ حضرت داؤدؑ نے زبان سے شکایت نہ کی، دل میں غصہ نہ بسایا، اور قدم صبر سے ہٹنے نہ دیے۔ اُن کی ثابت قدمی، اُن کا توکل، اور اُن کا ضبطِ نفس وہ خزانے بنے جن کی روشنی نے اُنہیں اُس بادشاہی تک پہنچایا جو صرف زمین پر حکومت نہ تھی، بلکہ دلوں پر بھی ربّ کی طرف سے عطا کردہ عزت و مقام تھی۔
آخر وہ دن آیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا آزمائش کا وقت ختم ہوا، اور انعام نازل ہوا۔ وہی داؤدؑ جو غاروں میں چھپتا تھا، اب ربِ کریم کے حکم سے تخت پر بیٹھا۔ وہی جو سجدوں میں ربّ سے لو لگاتا تھا، اب دلوں کا بادشاہ کہلایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی فتح تھی جو خاموشی سے اُترتی ہے، بندے کی وفاداری کا جواب بن کر، اُس کی عاجزی کا صلہ بن کر، اور اُس وعدے کی تکمیل کے طور پر جو ربِ جلیل نے اپنے خاص بندوں سے فرمایا ہوتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کی خلافت کا آغاز
جب حضرت داؤدؑ ربِ جلیل کے حکم اور اس کی مشیت کے تحت حبرون کی جانب روانہ ہوئے، تو یہ کوئی معمولی سفر نہ تھا، بلکہ وہ قدم تھے جو خلافتِ الٰہیہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اہلِ یہودا نے داؤدؑ کے سجدوں، ان کی بردباری، اور ان کے پاکیزہ سیرت کو دیکھ کر اُنہیں اپنا بادشاہ تسلیم کیا، یہ وہی لمحہ تھا جب ربِ کریم کی طرف سے خلافت کا دروازہ کھلا، اور آسمانی فیصلہ زمین پر ظاہر ہوا۔
حضرت داؤدؑ نے حبرون میں سات برس اور چھ ماہ تک صرف یہودا پر حکومت کی، مگر وہ بادشاہی تخت کی محبت سے نہیں، بلکہ ربِ جلیل کی رضا کے نور سے معمور تھی۔ وہ ہر دن کو بندگی کا وسیلہ سمجھتے، اور ہر حکم کو مشورۂ وحی کے تابع رکھتے۔ نہ عجلت تھی، نہ غرور، نہ کینہ، نہ فخر، بلکہ صبر، حکمت، اور توکل کے ساتھ وہ اپنے ربِ کریم کے ہر فیصلے پر راضی رہے۔ حضرت داؤدؑ کے سجدے تخت سے بلند، اور ان کی عاجزی قوم کی رہنمائی کا چراغ بن گئی۔ اور یہیں سے خلافتِ ربانی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو یروشلیم تک روشنی بکھیرتا گیا۔
بنی اسرائیل قوم کی تجدید
جب حضرت داؤدؑ کی بردباری، عدل، اور ربّ العزت پر مکمل توکل کی روشنی تمام قبائلِ اسرائیل پر آشکار ہوئی، جب اُن کے صبر کی خوشبو، ان کی قیادت کا وقار، اور ان کی سجدہ گاہوں کی روشنی دلوں میں جاگزیں ہو چکی، تو اُس وقت بنی اسرائیل کے تمام قبائل حبرون میں حضرت داؤدؑ کے پاس حاضر ہوئے۔ وہ جھکے دل کے ساتھ، خلوص کی زبان سے بولے: “ہم آپ کی ہڈی ہیں، اور آپ کا گوشت ہیں۔”
بنی اسرائیلیوں نے اعتراف کیا کہ جب حضرت ساؤل بظاہر بادشاہ تھا، تب بھی راہنمائی، تدبیر، اور قیادت کا بوجھ حضرت داؤدؑ ہی اُٹھاتے تھے۔ وہی ان کے لشکر کے سالار تھے، اور وہی دلوں کے چرواہے۔ انہوں نے دل سے یہ بات مانی جو ربِّ ذوالجلال پہلے ہی فرما چکا تھا: “تو میرے لوگوں اسرائیل کا چرواہا ہوگا، اور تو اسرائیل پر حکمرانی کرے گا۔”
پھر وہ وقت آیا جب بنی اسرائیل کے تمام بزرگ، دل کی نرمی اور ارادے کی استواری کے ساتھ، حضرت داؤدؑ کے حضور جمع ہوئے، اور اُن کے ہاتھ پر ربِ کریم کے نام پر عہد باندھا جو عہدِ اطاعت، عہدِ وفاداری، اور عہدِ صداقت۔ اُن پر اسرائیل کا بادشاہ ہونے کے لئے دوبارہ مسح کیا گیا، اور خلافتِ الٰہیہ کا وہ باب کھلا جس میں تخت تابع تھا وحی کے، اور قیادت خالص تھی بندگی کی بنیاد پر پر مبنی تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بنی اسرائیل کا بکھرا ہوا وجود ربّ تعالیٰ کے فیصلے سے ایک ہو گیا، اور خلافتِ حضرت داؤدؑ ایک روحانی اتحاد کا نشان بن گئی۔
روحانی مرکز کا قیام
جب حضرت داؤدؑ ربِ جلیل کے حکم سے خلافت کی راہ پر گامزن ہوئے، اور بنی اسرائیل ایک قیادت کے سائے میں جمع ہو گئی، تو وقت آیا کہ وہ شہر بھی تسخیر ہو جو مدتوں سے ایک قلعہ بن کر حق کے قیام کے راستے میں کھڑا تھا۔ یبوسیوں کا قلعہ جو یروشلیم کہلاتا تھا طویل عرصے سے ایک ناقابلِ رسائی مقام سمجھا جاتا تھا، مگر رب تعالیٰ کا فیصلہ جب نازل ہوتا ہے تو پتھر بھی راستہ دیتے ہیں، اور قلعے بھی جھک جاتے ہیں۔
حضرت داؤدؑ نے اُس قلعے پر چڑھائی کی، اور ربِ قہار کی نصرت سے اسے فتح کیا۔ وہی شہر جو قوموں کا مرکزِ تکبّر تھا، اب رب تعالیٰ کے نبی کی قیادت میں سجدوں کی سمت بننے لگا۔ حضرت داؤدؑ نے اس مقام کو “شہرِ داؤدؑ” قرار دیا، اور وہیں اپنے اقتدار کا مرکز قائم فرمایا۔ مگر یہ حکومت صرف زمین کی حد بندی نہ تھی، یہ ایک روحانی مرکز کی بنیاد تھی وہ مرکز جہاں بعد میں رب تعالیٰ کی عبادت کی مشعل روشن ہوئی، جہاں وحی کی گونج سنائی دی، اور جہاں قوموں نے اپنا قبلہ پایا۔
یروشلیم کی فتح صرف ایک قلعے کا گرنا نہ تھا، بلکہ یہ بندگی کی ایک بلند چوٹی کا قیام تھا۔ یہاں سے عدل کی صدائیں بلند ہوئیں، دعا کی خوشبو ہر سمت پھیلی، اور وہ شہر جو پہلے خوف اور جنگ کی علامت تھا، اب ربِ کائنات کے نور، ہدایت اور امن کا مرکز بن گیا۔
دشمنوں پر فتح
جب حضرت داؤدؑ نے رب تعالیٰ کی طرف سے خلافت سنبھالی، اور یروشلیم کو اپنا روحانی اور سیاسی مرکز بنایا، تو فلسطینیوں نے اس قیادت کو للکارا۔ فلسطینی چاہتے تھے کہ جس دل کو رب العزت نے اپنا قرب عطا فرمایا ہے، اُسے زمین پر سر بلند نہ ہونے دیا جائے، مگر فلسطینی یہ نہ جانتے تھے کہ جس کے ساتھ رب ذوالجلال ہوتا ہے، اُس کے خلاف اٹھنے والا ہر لشکر پاش پاش ہو جاتا ہے۔
حضرت داؤدؑ نے دشمن کے مقابلے میں نہ جلدی کی، نہ غرور دکھایا، بلکہ وہ ربِ کریم کے حضور جھکے، اور رہنمائی طلب کی۔ حضرت داؤدؑ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: ” اے خاوندِ عظیم کیا میں فلسطینیوں کے خلاف چڑھائی کروں؟ کیا تُو مجھے اُن پر غالب کرے گا؟”
تب وحی خداوندی سے جواب آیا: داؤدؑ “جا، میں ضرور فلسطینیوں کو تیرے ہاتھ میں کر دوں گا۔”
حضرت داؤدؑ نے رب تعالیٰ کے حکم کے مطابق بعل فِراضیم کے میدان میں لشکر کشی کی، اور ربِ جلیل کی نصرت سے ایسی فتح نصیب ہوئی کہ دشمنوں کی صفیں ایسے ٹوٹ گئیں جیسے سیلاب میں بند ٹوٹ جاتا ہے۔ حضرت داؤدؑ نے سجدہ کرتے ہوئے کہا: “رب ذوالجلال نے میرے دشمنوں کو میرے سامنے پانی کی طرح توڑ دیا۔”
یہ وہ لمحہ تھا جہاں ظاہر میں تلواریں تھیں، مگر حقیقت میں فتح رب تعالیٰ کی طرف سے اتری تھی۔ یہ نصرت اُس دل پر نازل ہوئی جو پہلے رہنمائی کے لئے جھکا، پھر ربِ جلیل کے حکم پر چلا، اور پھر اُس نے شکر کے ساتھ اعتراف کیا کہ اصل مدد زمین سے نہیں، آسمان سے آتی ہے۔
عبدالرحمٰن جامیؒ
به تکیهگه توکل، ز تاج و تخت گذر کن
که پادشاهی دلها، ز بندگی میآید
ترجمہ:
توکل کے سہارے چل، تاج و تخت کو چھوڑ دے؛
کیونکہ دلوں کی بادشاہی صرف بندگی سے حاصل ہوتی ہے۔
تشریح
یہ شعر حضرت داؤدؑ کے مقامِ خلافت و روحانیت کا آئینہ دار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو شخص دنیاوی تخت و تاج کے پیچھے دوڑے، وہ شاید لوگوں پر حکومت کر لے، مگر دلوں کی سلطنت اُسے نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن جو شخص ربّ پر توکل کرے، عاجزی سے بندگی اختیار کرے، اور اپنے وجود کو ربِ جلیل کے حکم کے تابع کر دے، اُس کے لئے رب تعالیٰ خود راہیں کھول دیتا ہے وہ تخت جس پر نور بیٹھے، وہ دل جس پر سجدہ اُترے، اور وہ حکمرانی جس میں دنیا کا غرور نہ ہو، صرف ربّ کی رضا ہو۔
نتائج:
حضرت داؤدؑ کی خلافت کوئی دنیاوی سازش یا اقتدار کی دوڑ نہ تھی، بلکہ وہ رب تعالیٰ کا چُنا ہوا فیصلہ تھا، جو صبر، حکمت اور توکل کی راہوں سے گزر کر نزول پذیر ہوا۔
تمام قبائلِ بنی اسرائیل کا حضرت داؤدؑ پر جمع ہونا، امت کے قلبی اور روحانی اتحاد کی نشانی تھا، جو صرف اُس قیادت پر ظاہر ہوتا ہے جو ربِ جلیل کے نور سے جڑی ہو۔
یروشلیم کی فتح محض سرزمین کی تسخیر نہ تھی، بلکہ ایک ایسے مقام کا انتخاب تھا جو رب العزت کی عبادت کا مرکز، اور زمین پر اس کی بندگی کا مظہر بن گیا یہ وہ مقام ہے جہاں دنیاوی تخت، ربِ کریم کی حضوری کے سائے میں آ گیا۔
حضرت داؤدؑ کی ہر فتح دراصل اُس نصرتِ الٰہی کا اثر تھی جو صرف اُن بندوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ربِ کائنات پر یقین رکھتے ہیں، اور جو ہر قدم اُس کی رضا سے اُٹھاتے ہیں۔
اختتامیہ
حضرت داؤدؑ کی حیاتِ مبارکہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جو بندہ ربِّ علیم کے فیصلوں پر راضی رہے، صبر کو اپنا زادِ راہ بنائے، اور توکل کی روشنی میں قدم بڑھائے، اُسے ربِ جلیل و جمیل وہ خلافت عطا فرماتا ہے جو زمین کے تخت سے نہیں، بلکہ آسمان کی رضا سے بلند ہوتی ہے۔