الٰہی بلاہٹ اور پہلی وحی
شب کے سناٹے ہر شے کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے تھے۔ زمین کی فضا میں خاموش تھی، آسمان گویا جھک کر کچھ کہنے کو تیار تھا۔ عبادت گاہ کا ماحول نور کی تلاش میں ٹھہرا ہوا تھا، اور ایک پاکیزہ دل حضرت سموئیلؑ خوابوں سے بیدار ہونے کے دہانے پر تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ربّ النور کی پکار پہلی بار اُن کے قلب پر دستک دے رہی تھی۔
نداء کی ابتدا: ربّ الغیب کی پکار
چراغ مدھم ہو چکے تھے، دیواریں گہری خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھیں، اور فضا میں سکوت رقصاں تھا۔ اچانک وہی صدا گونجی، جو الفاظ سے آزاد تھی، مگر دل میں اترنے والی تھی:
“سموئیل! سموئیل!”
حضرت سموئیلؑ ہڑبڑا کر جاگے۔ نہ کسی کو دیکھا، نہ کوئی صورت دیکھی مگر صدا سنائی دی۔ وہ تیزی سے اُٹھے اور استاد ایلیؓ کے پاس جا پہنچے:
“اے آقا! آپ نے مجھے پکارا؟ میں حاضر ہوں!”
ایلیؓ نے نرمی سے کہا:
“نہیں بیٹے، میں نے نہیں بلایا۔ جا کر سو جاؤ۔”
ربّ السموات کی دوسری نداء
سموئیلؑ پلٹ کر دوبارہ لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد پھر وہی ندا آئی:
“سموئیل! سموئیل!”
وہ فوراً اُٹھ کر پھر ایلیؓ کے پاس پہنچے:
“آپ نے بلایا؟ میں حاضر ہوں!”
ایلیؓ نے وہی جواب دیا:
“بیٹے، میں نے نہیں بلایا۔ جا کر آرام کرو۔”
تیسری نداء: ربّ القدوس کا لمس
تیسری بار وہی نورانی صدا گونجی۔ سموئیلؑ کا دل لرز گیا۔ وہ اُٹھ کر ایک بار پھر ایلیؓ کے پاس گئے:
“آپ نے مجھے بلایا؟”
اب ایلیؓ کچھ دیر خاموش رہے۔ اُنہوں نے سوچا، پھر سموئیلؑ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا:
“بیٹے! اگر دوبارہ آواز آئے، تو کہنا:
‘اے ربّ العزت! تیرا بندہ سن رہا ہے۔’”
چوتھی صدا: ربّ الجمال کی حضوری
حضرت سموئیلؑ واپس آ کر لیٹ گئے۔ دل میں ایک نئی کیفیت تھی۔ دل دھڑک رہا تھا، روح متوجہ تھی۔ پھر وہی پکار آئی:
“سموئیل! سموئیل!”
سموئیلؑ نے آہستگی، عاجزی اور ادب کے ساتھ کہا:
“اے ربّ الجمال! تیرا بندہ سن رہا ہے!”
یہی وہ لمحہ تھا جس نے بندگی کو قرب میں ڈھالا، اور ایک پاکیزہ دل کو ربّ الرؤوف کے کلام کی پہلی روشنی عطا ہوئی۔
فخرالدین عراقیؒ
زبانِ خامشی را صوتِ جانان میرسد
دلِ پاک است کہ از حضرت ندا آید یقین
ترجمہ:
خاموشی کی زبان تک جاناں کی آواز پہنچتی ہے، اور وہی پاک دل ہوتا ہے جسے حضرتِ حق کی نداء یقین کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔
تشریح:
یہ شعر اس روحانی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے جس میں دل خواہشات سے خالی ہو جائے، تب وہ ربّ الغیوب کی پکار کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ حضرت سموئیلؑ کی بیداری بھی اسی عرفانی سکوت میں ہوئی، جہاں ظاہری کان سوتے تھے اور باطنی کان جاگتے تھے۔ وہ لمحہ، وہ نداء، وہ قرب سب اسی خاموشی کے بطن سے نمودار ہوئے۔
نتائج:
- خاموشی میں تجلی, ربّ السمیع کی آواز شور میں نہیں، سکوت میں اترتی ہے۔
- ادبِ سماعت, نداء کو پہچاننے کے لیے تربیتِ روح اور تسلیم ضروری ہے۔
- صدا کے قابل کون؟ جس دل کو ربّ النور چُن لے، وہی اُس کی پکار سن پاتا ہے۔
- علم و قربانی , اگر علم میں اخلاص نہ ہو، تو وحی کسی اور کو منتقل ہو جاتی ہے۔
- تربیتِ استاد , ایلیؑ جیسے راہنما، ولو خود محروم ہوں، دوسروں کو وحی کے آداب سکھا سکتے ہیں۔
اختتامیہ:
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دل عبادت کی خامشی میں ڈوب جائے، تو ربّ العالمین کی پکار اُس کے اندر گونجتی ہے۔ حضرت سموئیلؑ کی بیداری ہر اُس دل کے لیے چراغِ راہ ہے جو ربّ الغفور کی نداء کا منتظر ہے۔ عبادت گاہیں آج بھی وہی خامشی رکھتی ہیں بس کوئی ہو جو عرض کرے:
“اے ربّ، تیرا بندہ سن رہا ہے!”