انگوروں کا باغ

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: سلطنتِ الٰہیہ کی ایک مثال سنو! ایک زمیندار تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھا تاکہ اپنے انگوروں کے باغ میں کام کرنے کے لئے مزدور لے جائے۔ اُس نے مزدوروں کے ساتھ ایک دینار یومیہ طے کر کے اُنھیں کام پر لگا دیا۔ قریبًا پہر دِن وہ پھر باہر گیا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ’شہر کے چوک میں مزدوری کے انتظار میں کچھ لوگ ابھی بھی فارغ بیٹھے ہیں۔ وہ اُن سے کہنے لگا: ’تم بھی میرے باغ میں جا کر کام کرو۔ جتنا تمہارا حق ہوگا، دے دوں‌گا۔‘ پس وہ کام پر چلے گئے۔ اُس زمیندار نے پِھر دوپہر اور تِیسرے پہر کے قرِیب نِکل کر وَیسا ہی کِیا، جب وہ باہر گیا تو اُسے فارغ بیٹھے کچھ اَور مزدور ملے۔ اُس نے اُنھیں بھی کام پر لگا دیا۔ دن ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے وہ زمیندار پھر باہر گیا۔ وہاں کچھ اَور فارغ مزدور کھڑے دیکھے، تو وہ اُن سے پوچھنے لگا: ’کیوں سارا دن فارغ بیٹھے رہے ہو؟‘ وہ کہنے لگے: ’ہمیں کام پر کسی نے لگایا ہی نہیں۔‘ زمیندار کہنے لگا: ’اچھا! تو تم بھی میرے باغ میں کام پر چلو!‘  جب شام ہوئی، تو زمیندار نے اپنے منشی سے کہا: ’مزدوروں کو بلا کر ہر ایک کو مزدوری دے دو! مگر آخر میں آنے والے مزدوروں سے شروع کرنا اور سب سے آخر میں پہلے!‘ جو مزدور دن گزرنے کے قریب ایک گھنٹہ پہلے آئے تھے، اُنھیں بھی پورے دن کے حساب سے ایک ایک دینار ملا۔ سب سے آخر میں وہ مزدور آئے جو سب سے پہلے کام پر آئے تھے۔ اُنھوں نے یہ سوچا کہ ’ہمیں زیادہ مزدوری ملےگی‘، مگر اُنھیں بھی ایک ایک دینار ہی ملا۔ مزدوری لینے کے بعد وہ مزدور زمیندار سے شکایت کرنے لگے: ’دیکھئے جناب! وہ لوگ جو آخر میں کام پر آئے تھے، اُنھوں نے تو صرف ایک ہی گھنٹا کام کِیا۔ اور وہ بھی ٹھنڈے وقت۔ ہم تو سب سے پہلے آئے اور سارا دن دھوپ اور گرمی میں کام کرتے رہے۔ مگر آپ نے تو ہم میں اور اِن میں کوئی فرق ہی نہیں رکھا۔ یہ ہے انصاف آپ کا؟‘ اُن میں سے ایک سے زمیندار کہنے لگا: ’مِیاں! کیا تمہارے ساتھ ایک ہی دینار طے نہیں ہؤا تھا؟ پھر مَیں نے کون سی بےانصافی کر دی؟ تمہارا حق تمہیں مل گیا۔ جاؤ! یہ میری صوابدید ہے کہ اُس آخری کو تمہارے برابر دوں۔ کیا مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی دولت جیسے چاہوں خرچ کروں؟ تم مجھے حسد کی نظر سے دیکھتے ہو؟ میری یہ سخاوت تمہیں اچھی نہیں لگتی؟‘“ یہ مثال دینے کے بعد سیدنا عیسٰیؑ نے فرمایا: ”یوں روزِ محشر بہت سے لوگوں کو جو اپنے آپ کو آخر مقام پر سمجھتے ہیں، خدا اوّل مقام بخشےگا اور بہت سے لوگوں کو جو اپنے آپ کو اوّل مقام پر سمجھتے ہیں، خدا آخر مقام پر کر دےگا۔