بادشاہ، جنگ، فتح، رب پاک پر بھروسہ

جب رب تعالیٰ کسی امت کو مسلسل فتوحات عطا فرماتا ہے، تو اُس کی راہ میں آنے والے دشمن صرف تیغ و تلوار والے نہیں ہوتے، بلکہ وہ خوف ہوتے ہیں جو دلوں میں پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل جنوب میں نمایاں فتوحات حاصل کر چکے تھے۔ اب وقت تھا کہ شمالی علاقوں کی طرف قدم بڑھایا جائے وہاں جہاں بادشاہی اتحاد، ریت کی مانند وسیع لشکر، اور خیموں کی بھرمار تھی، مگر اُن کے مقابل حضرت یشوع بن نونؑ کے دل میں رب کا وعدہ تھا، اور ہاتھ میں وفا کی تلوار۔


طاقت کا زعم، شکست کا آغاز

شمالی علاقے کے بادشاہ، حاصور کا بادشاہ یابین، نے اردگرد کے تمام حکمرانوں کو اکٹھا کیا۔ اُنہوں نے اموری، کنعانی، فرزی، یبوسی اور مدیان جیسے قبیلوں کو ملا کر ایک ایسا اتحاد بنایا جس کی تعداد سمندر کی ریت کی مانند تھی۔ ان کے گھوڑے، رتھ، اور جنگی سازوسامان زمین پر دھمک بن گئے۔ مگر حضرت یشوع بن نونؑ نے نہ گھبرایا، نہ پیچھے ہٹے کیونکہ رب تعالیٰ نے فرمایا تھا:
“اُن سے مت ڈر، کل اِس وقت میں اُنہیں تیرے ہاتھ میں کر دوں گا۔”


لشکروں کے سامنے الہامی تیغ

حضرت یشوع بن نونؑ نے اچانک حملہ کیا، اور رب تعالیٰ نے اُن کے دشمنوں کو ایسا خوفزدہ کیا کہ اُن کے دل بکھر گئے۔ بنی اسرائیل نے اُن کے گھوڑوں کو کاٹ ڈالا، رتھوں کو جلا دیا، اور اُن کے قلعے زیر و زبر کر دیے۔ حاصور شہر، جو شمالی فتنہ کا مرکز تھا، مکمل طور پر آگ میں جلایا گیا تاکہ دنیا جان لے کہ رب العزت کی زمین پر ظلم کے قلعے باقی نہیں رہتے۔


رب العزت کی پیش گوئی کی تکمیل

حضرت یشوع بن نونؑ نے 31 بادشاہوں کو شکست دی۔ یہ صرف ایک عسکری گنتی نہ تھی، بلکہ اُس الہامی وعدے کی تکمیل تھی جو حضرت موسیٰؑ کو رب تعالیٰ نے دیا تھا:
“میں تجھے اُس زمین پر پہنچاؤں گا جہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہیں، اور تو اُن بادشاہوں کو زیر کرے گا جو میرے راستے میں رکاوٹ ہوں گے۔”
یہ فتوحات صرف تلوار سے نہ تھیں، بلکہ صدق، اطاعت، اور روحانی قیادت کی روشنی سے تھیں۔

حضرت شیخ سعدیؒ

نہ شمشیر بُرد آں زمیں را تمام
ولے عدل بنمود ملک را دوام

ترجمہ:
تمام زمین تلوار سے حاصل ہو سکتی ہے،
مگر صرف عدل سے ملک کو دوام حاصل ہوتا ہے۔

تشریح:
حضرت یشوع بن نونؑ نے صرف فتح کی بنیاد نہ رکھی، بلکہ عدل کے ساتھ زمین کو تقسیم کر کے اُس فتح کو بقا عطا کی۔ کیونکہ اصل حکمت صرف دشمن کو گرانا نہیں، بلکہ قوم کو کھڑا کرنا ہے۔


نتیجہ

فتح کا کمال صرف میدان میں نہیں، بلکہ اُس کے بعد نظام قائم کرنے میں ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ نے صرف شمالی بادشاہوں کو شکست نہ دی، بلکہ امت کو اُس منزل پر پہنچایا جہاں ہر قبیلہ اپنی شناخت، اپنی حدود، اور اپنے مقام پر قائم ہوا اور یہ سب رب کی رضا اور شریعت کی حکمت سے ممکن ہوا۔


اختتامیہ

حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت کا یہ مرحلہ اُس وقت مکمل ہوا جب شمال کی طاقت، فریب، اور فتنہ ٹوٹ گیا، اور رب کی زمین اُن کے بندوں میں عدل کے ساتھ بانٹی گئی۔یہ وہ لمحہ تھا جب امت نے فتح کو ترتیب میں بدلا، اور زمین کو رب کی رضا سے سینچا۔ ایمان کی روشنی، قیادت کی دانائی، اور رب کی نصرت یہی وہ تین ستون تھے جن پر بنی اسرائیل کی مستقل بنیاد قائم ہوئی۔

سوال کا جواب دیں