باغ اور مزارعین

” سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: ایک زمیندار تھا۔ اُس نے انگوروں کا ایک باغ لگایا۔ اُس کے ارد گرد باڑ لگائی۔ اُس کی رکھوالی کے لئے پہرا بُرجی بنوائی۔ انگوروں سے رس نکالنے کے لئے ایک حوض بنوایا۔ پھر اُسے پَٹّے پر مزارعین کے حوالے کر کے خود پردیس روانہ ہو گیا۔ ”جب انگور توڑنے کا موسم آیا، تو زمیندار نے ٹھیکا وصول کرنے کے لئے اپنے ملازمین بھیجے۔ جب ملازمین پہنچے، تو مزارعین نے ایک کو پکڑ کر پِیٹا، دوسرے کو قتل کر دیا، تیسرے کو سنگسار! اِس کے بعد زمیندار نے پہلے سے بھی زیادہ ملازمین بھیجے، مگر اُنھوں نے اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کِیا۔ آخرِ کار زمیندار نے اپنے فرزندِ محبوب کو یہ سوچ کر بھیجا کہ ’وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں‌گے۔‘ جب مزارعین نے زمیندار کے بیٹے کو آتے دیکھا، تو آپس میں کہنے لگے: ’یہی تو ہے وارث! آؤ ہم اِسے مار ڈالیں اور اُس کی وراثت پر قبضہ کر لیں!‘ لہٰذا مزارعین اُسے پکڑ کر باغ سے باہر گھسیٹ لے گئے اور مار ڈالا! ”اب تم بتاؤ! جب زمیندار  خود آئےگا، تو اُن مزارعین کا کیا حشر کرےگا؟“ وہ علمائے سُوء آپؑ سے کہنے لگے: ”وہ اُن بدمعاشوں کو نیست و نابود کر دےگا اور باغ کا ٹھیکا ایسے مزارعین کو دےگا جو وقت پر فصل کا مقررہ حصہ ادا کرتے رہیں۔“ سیدنا عیسٰیؑ نے اُن سے فرمایا: ”تم لوگوں نے کلامُ اللہ میں یہ تو پڑھا ہی ہوگا کہ ’جس پتھر کو معماروں نے بےکار سمجھ کر رد کر دیا، وہی سنگِ بنیاد بن گیا۔ یہ کرشمہ تھا ربّ کا! دیکھنے میں چاہے کتنا عجیب ہی کیوں نہ لگے۔‘ سنو! جو کوئی اِس پتھر پر گرےگا، وہ ریزہ ریزہ ہو جائےگا اور جس پر یہ پتھر گرےگا، اُسے پِیس ڈالےگا۔ اِسی لئے مَیں عیسٰی تمہیں بتاتا ہوں کہ ربُّ العزت تم بےعملوں سے سلطنتِ الٰہیہ میں داخل ہونے کا حق واپس لے کر اُن لوگوں کو عطا کر دےگا جو اُس کے تقاضوں کے مطابق ثمربار زندگی گزاریں۔