بصیرت کا فریب اور وسوسے کی شدت

جب شیطان نے پہلی مرتبہ بی بی حواؓ کے دل میں سوال کی صورت میں وسوسہ ڈالا، تو وہ دروازہ کھلا، جس سے فتنہ اندر داخل ہوا۔ مگر یہ فتنہ مکمل نہ تھا — ابھی ایک فیصلہ باقی تھا۔

اسی لیے شیطان ایک بار پھر سانپ کے روپ میں آیا۔
اب کی بار اُس کی بات میں ایک نیا رنگ تھا علم، بصیرت اور اختیار کا جھوٹا وعدہ۔

شیطان، جس نے سانپ کا روپ دھارا تھا، نے دوسری بار بی بی حواؓ کو بہکاتے ہوئے کہا:
“ایسا قطعاً نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ، جو علیم و خبیر ہے، جانتا ہے کہ جس دن تم دونوں شجرِ ممنوعہ کے درخت میں سے پھل کھاؤ گے، تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔ تمہیں بصیرت حاصل ہو جائے گی، اور تم عرش والے کی طرح خیر و شر کا انتخاب خود کرنے لگو گے!”

یہ فقرے دنیا کے سب سے پرانے فریب کا خلاصہ تھے۔
یہ نہ صرف ربّ کے حکم میں شک ڈالنے کی چال تھی،
بلکہ ربّ کے مقام تک پہنچنے کا جھوٹا وعدہ بھی۔

شیطان نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اللہ کا حکم غلط ہے،
بلکہ یہ کہا کہ اس کے پیچھے ایک راز چھپا ہے، جو تم سے چھپایا گیا ہے۔
یہی شک وسوسے کی سب سے خطرناک شکل ہے۔

بی بی حواؓ رک گئیں دل میں ایک جھجک تھی، مگر فریب کی مٹھاس بڑھنے لگی۔
وہ درخت اب پہلے سے زیادہ حسین دکھائی دیتا تھا۔
پھل کی خوشبو تیز محسوس ہوتی تھی۔
ایک گہری خاموشی میں، ایک فیصلہ جنم لے رہا تھا مگر ابھی وہ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔


شیخ فرید الدین عطارؒ

چو دیدی نقشِ نیکو در نظر، مشنو فریب
کہ ہر خوش رنگ دانی، نیست اندر معنی پاک

تشریح:

شیخ عطارؒ فرماتے ہیں کہ ہر خوبصورت دکھنے والی چیز کو سچ نہ سمجھو، کیونکہ ظاہری رنگت اکثر فریب ہوتی ہے، اور اس کے باطن میں گمراہی چھپی ہو سکتی ہے۔
یہ شعر وسوسے کے اس لمحے کی وضاحت کرتا ہے جب بی بی حواؓ نے درخت کو دیکھا — وہ خوش رنگ تھا، مگر حقیقت میں آزمائش۔


نتائج:

  1. شیطان ہمیشہ سچ کے کچھ حصے کو لے کر جھوٹ کا قلعہ تعمیر کرتا ہے۔
  2. بصیرت کا وعدہ انسان کے تکبر کو جگاتا ہے۔
  3. گناہ سے پہلے وسوسے کی طاقت بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔
  4. فتنہ اُس وقت زیادہ اثر کرتا ہے جب وہ اختیار، علم، یا خودمختاری کے پردے میں آئے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں بتاتا ہے کہ فریب ہمیشہ ایک نرم وعدے کے ساتھ آتا ہے — وہ وعدہ جو نافرمانی کو بصیرت کا راستہ بنا کر دکھاتا ہے۔
اس مقام پر ابھی گناہ سرزد نہیں ہوا، مگر دل کے اندر فیصلہ قریب ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں ایمان، یقین، اور بندگی کے درمیان جنگ لڑی جاتی ہے۔

سوالات کے جواب دیں