بنی اسرائیل قوم اور بادشاہ کا مطالبہ

وہ وقت آ چکا تھا جب بنی اسرائیل قوم کی نظریں زمین پر گڑی تھیں اور دل، تاج و تخت کے خواب بُن رہے تھے۔ وہ بنی اسرائیل قوم، جو کبھی ربّ العرش کے کلام سے سمت پاتی تھی، اب انسان کے اختیار میں امن تلاش کرنے لگی تھی۔ ان کے اندر کی روحانیت خاموش ہو چکی تھی، اور باہر کی دنیا کی چمک، روشنی بن کر نظر آ رہی تھی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب بنی اسرائیل قوم نے آسمان کی بادشاہی کو چھوڑ کر زمین کی سلطنت مانگی اور اس فیصلے نے ان کی روح کی فطرت کو بےنقاب کر دیا۔


بنی اسرائیل کا بادشاہ طلب کرنا

بنی اسرائیل حضرت سموئیلؑ کے پاس آئے نہ اطاعت کی تجدید کے لئے، نہ ہدایت کی تلاش میں بلکہ محض ایک مطالبے کے ساتھ اور بنی اسرائیل قوم نے حضرت سموئیلؑ سے کہا:

“ہمیں بھی ایک بادشاہ چاہیے، جیسے اور قوموں کا ہوتا ہے۔”

بنی اسرائیل قوم کا یہ کہنا، صرف سیاسی خواہش نہ تھی بلکہ اس بات کا اعلان تھا کہ ہمیں روحانی قیادت کافی نہیں، ہمیں دنیا کی حکومت چاہیے۔
بنی اسرائیل قوم نے مزید حضرت سموئیلؑ سے کہا، ہمیں وہ بادشاہ چاہیے جو ہماری جنگیں لڑے، ہماری سرحدیں بچائے، اور ہمیں دنیا کی نظر میں معزز بنائے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب وحی کی جگہ جنگی حکمت نے، اور ربّ العزت کے حضور جھکنے کی جگہ تخت و تاج کی طلب کی گئی۔


حضرت سموئیلؑ کی دل کی آزردگی

حضرت سموئیلؑ نے جب بنی اسرائیل قوم کی طرف سے یہ مطالبہ سنا تو اُن کا باطن لرز گیا۔ اس لئے نہیں کہ بنی اسرائیل قوم نے اُنہیں رد کیا بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ربّ السموات کے نظامِ رحمت کو مسترد کر دیا۔
سموئیلؑ، وہ تھے جنہوں نے وحی سنی، معجزہ دیکھا، تابوتِ عہد کی حضوری جھیلی
اب اُن کے سامنے وہی بنی اسرائیل قوم کھڑی تھی جو کہہ رہی ہے کہ:
ہمیں انسان کی بادشاہی چاہیے۔

حضرت سموئیلؑ نے بنی اسرائیل قوم کو کچھ نہ کہا اور نہ اُن سے جھگڑا کیا۔
بس دل کی آزردگی لئے ربّ العالمین کی بارگاہ میں پیش ہو کر بنی اسرائیل کے اس مطالبے کو پیش کیا۔


رب تعالیٰ کا جواب اور سموئیلؑ کی فرمانبرداری

ربّ العالمین نے حضرت سموئیلؑ سے کہا:
“ اے میرے بندے سموئیلؑ بنی اسرائیلی تجھے نہیں، مجھے رد کر رہے ہیں۔”
یہ جملہ، اگرچہ دردناک تھا لیکن اس میں ربّ القدوس کی حکمت، اپنے بندے سموئیلؑ سے محبت، اور بنی اسرائیل قوم کے لئے خاموش آزمائش چھپی ہوئی تھی۔

ربّ العزت نے سموئیلؑ سے فرمایا:
بنی اسرائیل کے لئے بادشاہ انتخاب کرو، مگر اُن کو پہلے بتا دو کہ بادشاہ لینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
جس بادشاہ کو تم نے خود چُنا ہے، وہ تمہارے بیٹوں کو اپنے لشکر میں شامل کرے گا، انہیں اپنے رتھوں، گھوڑوں اور جنگی صفوں میں دوڑائے گا، تمہاری بیٹیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گا، تمہاری زمینیں، باغات اور محنت کی کمائی اپنے مصاحبوں میں بانٹ دے گا، تمہارے مال و جان پر عشر مقرر کرے گا، اور آخرکار تم اس کے غلام بنو گے؛ پھر جب تم اس کے ظلم سے فریاد کرو گے، تو وہی رب جسے تم نے چھوڑا، تمہاری فریاد نہ سنے گا۔
حضرت سموئیلؑ نے رب تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی اور بنی اسرائیل قوم کو وہ سب کچھ بتایا جو رب تعالیٰ نے فرمایا تھا۔
حضرت سموئیلؑ نے اپنی رائے سامنے نہیں رکھی، نہ ذاتی غم، نہ کوئی مزاحمت بلکہ رب کے نیک بندے کی طرح سر جھکا کر وہی بوجھ اُٹھا لیا جو اُس کی قوم بنی اسرائیل نے ربّ العزت سے مانگا تھا۔


دنیا پرستی کا آغاز اور روحانیت کی پسپائی

بنی اسرائیل قوم نے جو مانگا، وہ اُنہیں مل گیا ایک بادشاہ، ایک سلطنت، ایک فوج، ایک دنیاوی وقار لیکن اس کے ساتھ روحانیت کی روشنی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی۔
فیصلے وحی سے نہیں، محلوں میں ہونے لگے۔
دعائیں دل سے نہیں، درباروں سے ادا کی جانے لگیں۔ بنی اسرائیل قوم نے جو پایا، وہ ظاہر کی بادشاہی تھی مگر باطن میں وہ ربّ تعالیٰ کی محبت کا دروازہ آہستہ آہستہ بند کر چکے تھے۔


سموئیلؑ کی آنکھوں سے قوم کی فطرت کا مکاشفہ

حضرت سموئیلؑ نے اس منظر کو صرف دیکھا نہیں محسوس بھی کیا بلکہ اس نے بنی اسرائیل قوم کی خالی آنکھوں میں وہ طلب دیکھی، جو نفس کی طلب تھی اور روح کی نہیں تھی۔
حضرت سموئیلؑ نے جانا کہ بنی اسرائیل قوم، جسے وہ باطنی قرب کے لئے سکھا رہا تھا،
اب دنیا کی فتوحات کے خواب میں اپنی روح بیچنے لگی ہے۔

حضرت سموئیلؑ خاموش رہا کیونکہ نبی ہمیشہ شکوہ نہیں کرتا، وہ درد کو جھیلتا ہے، تاکہ امت اپنی آزمائش کو پہچان سکے۔


: امام نجم الدین کبریؒ

طالبِ دنیا چو از درگاه برون آید ز شوق
دیدۂ دل کور گردد، فقرِ جاں آید فروک

ترجمہ:
جب دنیا کا طالب ربّ کے در سے نکلتا ہے،
تو دل کی آنکھ اندھی ہو جاتی ہے، اور روح فقیر ہو جاتی ہے۔

تشریح:
یہ شعر وہی حقیقت بیان کرتا ہے جو حضرت سموئیلؑ کی آنکھوں نے دیکھی کہ بنی اسرائیل قوم، جب ربّ العالمین کی بادشاہی سے نکل کر انسان کی حکومت مانگنے لگی،
تو وہ ظاہری عزت میں بڑھی، لیکن باطن میں گر گئی۔
دنیا جب طلب بن جائے،
تو روح کا فقر مقدر بن جاتا ہے اور یہی وہ خطرہ تھا، جسے حضرت سموئیلؑ نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔


نتائج:

  1. بادشاہی کی طلب میں بنی اسرائیل قوم نے ربّ العالمین کی رحمت سے انکار کیا۔
  2. روحانی قیادت کو سیاسی ساخت میں بدلنا قربِ الٰہی سے دوری کی علامت ہے۔
  3. حضرت سموئیلؑ کی خاموشی، اصل میں بنی اسرائیل قوم کے لئے آزمائش کی گہرائی کا اعلان تھی۔
  4. دنیا کی فتوحات، اگر روح کی روشنی لے جائیں، تو وہ فتح نہیں، غفلت ہے۔
  5. ربّ العالمین، قوم کو اُن کے دل کی مرضی دیتا ہے تاکہ وہ اپنے انجام سے خود سیکھیں۔

اختتامیہ:

یہ باب ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ قوم اگر ربّ کی حکمرانی کو چھوڑ کر انسان کی حکومت مانگے، تو وہ صرف نظام نہیں بدلتی، روح کی سمت کھو بیٹھتی ہے۔
حضرت سموئیلؑ کی خاموشی، بنی اسرائیل قوم کی آزمائش، اور ربّ العالمین کا اجازت نامہ یہ سب وہ خفیہ مکالمہ ہے، جسے ہر دل آج بھی سن سکتا ہے:
کیا تم ربّ کی رہنمائی چاہتے ہو؟ یا دنیا کی بادشاہت؟