بنی اسرائیل قوم کی گمراہی اور جب کلام نایاب ہوا
وہ زمانہ آ گیا تھا جب آسمان کی صدائیں خاموش ہو چکی تھیں، عبادت گاہ کی فضائیں بےرنگ، اور بنی اسرائیل قوم کے دل کلامِ ربّانی کے نور سے خالی ہو چکے تھے۔ وہ دن، جب ربّ السمیع کی آوازیں محض تذکروں میں باقی تھیں، اور وہ راتیں، جب ربّ النور کی تجلی محض قصوں میں سمٹ چکی تھی۔ بنی اسرائیل قوم نے اپنی روحانی بینائی گنوا دی تھی، اور ان کے اعمال نے نداء کے دروازے بند کر دیے تھے۔
نبوت کا سکوت اور بنی اسرائیل قوم کی روش
کلام اب نایاب ہو چکا تھا۔ نہ کوئی وحی نازل ہوتی تھی، نہ کوئی خواب آتا تھا۔ ربّ الغیب کا سکوت دراصل اس بنی اسرائیل قوم کی اندرونی گمراہی کا عکس تھا، جس نے عبادات کو عادت، اور دین کو رسم بنا دیا تھا۔ لب ہلتے تھے، مگر دل خاموش تھے؛ مناجات کی صدائیں تھیں، مگر ان میں سوزِ بندگی نہ رہا تھا۔ بنی اسرائیل قوم کی روش نفس پرستی، خودغرضی، اور قربِ ربّ تعالیٰ سے غفلت کی سمت جا رہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب وحی کا نایاب ہو جانا خود ایک عذاب بن گیا تھا۔
عبادت گاہ کی بےنوری اور قیادت کی شکست
عبادت گاہ، جو کبھی ربّ العرش کی تجلی کا مقام تھی، اب محض ایک عمارت رہ گئی تھی۔ اس کے در و دیوار سے ذکر کی خوشبو جاتی رہی تھی۔ اُس عبادت گاہ کی روشنی، جسے دلوں سے جڑ کر جلنا تھا، اب صرف دیواروں سے ٹکرا کر بجھ جاتی تھی۔
ایلیؓ، جو کبھی روحانی قیادت کی علامت تھا، اب عمر رسیدگی اور روحانی بے بصیرتی کے عالم میں تھا۔ اُس کی آنکھیں کمزور ہو گئی تھیں، اور دل سے نورِ ہدایت کا چراغ مدھم پڑ چکا تھا۔ قیادت، جو روحوں کی چرواہی کا مقام رکھتی تھی، خود اندھی ہو چکی تھی۔
ایلیؓ کے بیٹوں کی بے راہ روی
ایلیؓ کے بیٹے وہ جنہیں عبادت گاہ کی خدمت وراثت میں ملی تھی بے راہ روی، حرام کاری اور دنیا پرستی میں مبتلا ہو چکے تھے۔ انہوں نے ربّ تعالیٰ کے قرب کو تجارت بنا دیا، قربانی کے گوشت کو لذت کا ذریعہ سمجھا، اور عبادت گاہ کی حرمت کو نفسانی خواہشات کے سامنے روند ڈالا۔
ایلیؓ ان کی حرکات سے آگاہ تھا، مگر اُس کی ملامت محض الفاظ تک محدود رہی۔ ربّ القدوس کی ناراضی قریب تھی، اور صدائیں آسمان سے کھینچ لی گئیں تھیں۔
حضرت سموئیلؑ کا مقامِ باطنی
ایسے میں، ایک ننھا دل حضرت سموئیلؑ عبادت گاہ کے سکوت میں، ربّ العالمین کی حضوری میں تربیت پا رہا تھا۔ وہ خاموشی میں بیٹھتا، فرش پر سوتا، اور اپنے دل کے آئینے کو ہر شب پاک کرتا۔ قوم گمراہی میں تھی، قیادت اندھی ہو چکی تھی، عبادت گاہ بےنُور تھی مگر ایک چراغ باطن میں روشن تھا، جو آہستہ آہستہ اپنی روشنی بڑھا رہا تھا۔
یہ وہ مقام تھا جہاں وحی کے بند دروازے کے سامنے ایک بندۂ خفیہ اپنی سانسوں سے آہستگی کی دستک دے رہا تھا۔
وحی کا نایاب ہو جانا: ایک آزمائش
جب ربّ الرؤوف کی وحی نایاب ہو جائے، تو یہ نہ صرف سزا ہے، بلکہ آزمائش بھی ہے۔ اُس سکوت کے دوران قرب، صدق، اور اخلاص کی پرکھ ہوتی ہے۔ حضرت سموئیلؑ، خاموشی کے اس جہان میں، اپنے دل کی آنکھوں سے سن رہے تھے، جو لوگ کانوں سے بھی نہیں سن پاتے تھے۔ وحی کا نایاب ہو جانا درحقیقت بنی اسرائیل قوم کی بےوفائی کا جواب تھا مگر ساتھ ہی، ایک نئے نبی کی تیاری کا آغاز بھی تھا۔
خواجہ عبد اللہ انصاریؒ
چو دل گم کردہ گردد در شبِ ہجرانِ جاناں
ندایِ وصل آید از دلِ خاموشِ ویران
ترجمہ:
جب دل ہجر کی رات میں گم ہو جائے، تو وصل کی ندا اُسی خاموش و ویران دل سے آتی ہے۔
تشریح:
خواجہ انصاریؒ کا یہ شعر اس روحانی کیفیت کی ترجمانی ہے جو بنی اسرائیل قوم کی گمراہی کے وقت حضرت سموئیلؑ کے باطن میں چمک رہی تھی۔ بنی اسرائیل قوم غفلت میں تھی، دل ویران ہو چکے تھے، مگر ایک خاموش دل وہی تھا جہاں سے ربّ الغیب کی نداء کو دوبارہ جگہ ملنے والی تھی۔ سکوت میں وہی دل روشن ہوتے ہیں جو فراق میں بھی وفا کے چراغ جلائے رکھتے ہیں۔
نتائج:
- کلامِ الٰہی کی خامشی ربّ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت بھی ہو سکتی ہے، اور اہل دل کے لیے آزمائش بھی۔
- قیادت اگر فانی ہو جائے تو عبادت گاہیں صرف دیواریں بن جاتی ہیں، ان میں تجلی باقی نہیں رہتی۔
- وراثتِ دین صرف نسب سے نہیں، بلکہ نیت، طہارت اور روحانی بندگی سے ملتی ہے۔
- خاموش دل وہی سنتا ہے جو دنیا کے شور سے آزاد، عشقِ ربّ میں ساکن ہو چکا ہو۔
- وحی کا بند ہونا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی روحانی ابتداء کا آغاز ہو سکتا ہے جیسا حضرت سموئیلؑ کے ساتھ ہوا۔
اختتامیہ:
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ الٰہی کلام اگر نایاب ہو جائے تو بندگی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اور نکھر جاتی ہے۔ جب قوم غفلت میں سو جائے، جب قیادت کمزور ہو جائے، جب عبادت گاہیں خالی ہو جائیں تب ربّ القدیر کسی گمنام فرش نشین کو اپنے کلام کا مقام دے دیتا ہے۔ حضرت سموئیلؑ کی خاموش تربیت، ایک وعدہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کو تاریکی میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔