بنی اسرائیل کا پہلا بادشاہ
یہ وہ لمحہ تھا جب بنی اسرائیل قوم نے ربّ العرش کی طرف سے ملنے والے باطنی نور کو ترک کر کے دنیا کے جھوٹے جلال کو گلے لگایا۔ وہ دل، جو کبھی حضوری کے اشکوں سے لبریز تھے، اب تخت و تاج کے خمار میں ڈوب چکے تھے۔ ربّ العالمین نے اُن کی ضد کو رد نہ کیا بلکہ اُسے عطا کر کے ان کے باطن کے فقر کو آشکار کر دیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں بادشاہی کا مطالبہ ایک روحانی اضطراب کی بنیاد بن گیا۔
حضرت ساؤلؑ کا انتخاب
بنی اسرائیل قوم کی نظر میں حضرت ساؤلؑ ہر لحاظ سے قابلِ قبول تھے: قد و قامت میں بلند، چہرے میں جاذب، قبیلے میں عزت دار، اور صورت میں شاہانہ۔ مگر حضرت سموئیلؑ کی نگاہ ظاہر میں نہیں بلکہ وہ دل کے آئینے میں دیکھتے تھے۔
حضرت ساؤلؓ میں وہ باطنی لرزش، وہ نورانی خشیت، وہ فقیرانہ جھکاؤ نہ تھا جو ایک ربّ تعالیٰ کا منتخب امیر رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ بنی اسرائیل قوم کی طلب ظاہر کی تھی ربّ العلیم نے بھی انہیں ظاہر کی صورت عطا کر دی۔
حضرت سموئیلؑ کی دست گزاری اور دعا
ربّ القدوس کے حکم سے حضرت سموئیلؑ نے حضرت ساؤلؓ کو خلوت میں بلایا اور اُن کے سر پر دستِ دُعا رکھا۔ یہ عمل محض تیل کا بہاؤ نہ تھا، بلکہ ایک روحانی ذمہ داری کی منتقلی تھی۔
حضرت سموئیلؑ نے حضرت ساؤلؓ کو فرمایا: “ربّ تعالیٰ نے تجھے اپنی قوم بنی اسرائیل پر بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔”
یہ الفاظ اعلان نہ تھے، بلکہ ایک نبی کا صبر آلودہ تسلیم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جو شروع ہوا ہے، وہ قیادت نہیں آزمائش ہے۔ حضرت سموئیلؑ کی دعا میں کوئی وجد نہ تھا، فقط سکوتِ نبی کی صداقت تھی۔
حضرت ساؤلؓ کی عاجزی یا آزمائش؟
حضرت ساؤلؓ نے جب اپنے انتخاب کی خبر سنی، تو انکسار کی چادر اوڑھ لی خود کو کمزور، غیرمعتبر اور چھوٹے قبیلے کا فرد ظاہر کیا۔ بنی اسرائیل قوم نے اُن کی عاجزی کو خلوص سمجھا اور جشن منایا۔
مگر حضرت سموئیلؑ جانتے تھے کہ ہر جھکاؤ فقر کا دروازہ نہیں ہوتا۔ بعض جھکاؤ نفس کی نئی چال ہوتی ہے اور آزمائش کے نقاب میں لپٹی ہوئی خواہشیں۔
بنی اسرائیل کی خوشی اور نبی کا سکوت
بنی اسرائیل نے حضرت ساؤلؓ کی تقرری پر نعرے بلند کیے، جھنڈے لہرائے، اور اسے ایک نئی فتوحات کی صبح قرار دیا۔ لیکن حضرت سموئیلؑ خاموش کھڑے تھے اور اُن کی زبان بند، مگر دل بیدار تھا۔
حضرت سموئیلؑ جانتے تھے کہ بنی اسرائیل قوم کو جو ملا، وہ اُن کے نفس کی شدت تھی، ربّ تعالیٰ کی رضا نہیں تھی۔
حضرت سموئیلؑ نے اُنہیں نہ مبارکباد دی، نہ کوئی خطبہ دیا صرف خاموشی میں ایک ولی کا عرفانی احتجاج باقی رہا۔
روحانی اضطراب کا آغاز
حضرت ساؤلؓ کا بادشاہ مقرر ہونا ظاہری منظر میں بظاہر روشنی تھی مگر حضرت سموئیلؑ کے دل پر شبِ تار کی ابتدا تھی۔
یہ وہ مقام تھا جہاں وحی کا مینار محل کے سائے میں ڈھل گیا، اور دعا کا چراغ دربار کی چھاؤں میں ٹمٹمانے لگا۔
حضرت سموئیلؑ جانتا تھا کہ اب بنی اسرائیل قوم کی راہ تخت کی پیروی میں ہے اور اس راہ میں قربانی کم، آزمائش زیادہ ہوگی۔
شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ
دل ز نورِ حق چو خالی گشت، پُر گردد ز خاک ظاہر آید تاج و تخت و باطنش باشد ہلاک
ترجمہ:
جب دل ربّ کے نور سے خالی ہو جائے، تو وہ مٹی سے بھر جاتا ہے۔ ظاہر میں تاج و تخت نظر آتا ہے، مگر باطن ہلاکت کی طرف جاتا ہے۔
تشریح:
یہ عرفانی نکتہ حضرت ساؤلؓ کی تقرری اور بنی اسرائیل قوم کی طلب پر روشنی ڈالتا ہے۔ حضرت سموئیلؑ جانتے تھے کہ جب قوم ظاہر کی طرف جھک جائے، تو باطن میں ہلاکت پَروان چڑھتی ہے۔ اگر دل ربّ العرش کے نور سے خالی ہو، تو تخت اسے اندھا نہیں بناتا بلکہ غرق کر دیتا ہے۔
نتائج:
- بنی اسرائیل قوم کی دنیاوی طلب نے وحی کی راہ کو دنیاوی دہلیز سے بدل دیا۔
- حضرت سموئیلؑ کی خاموشی ایک روحانی احتجاج تھی جو کسی بھی نبی کی شدید بیداری کی علامت ہے۔
- اگر قیادت دل کے اخلاص سے محروم ہو، تو وہ قوم کو ظاہر میں چمکا کر باطن میں گرا دیتی ہے۔
- حضرت ساؤلؓ کا انتخاب، آزمائش کا ایک نقاب تھا جس کے پیچھے بنی اسرائیل قوم کے باطن کا زوال چھپا ہوا تھا۔
- ربّ تعالیٰ، قوم کو اُن کی ضد عطا کرتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی آگ میں اپنے انجام کو پہچان سکیں۔
اختتامیہ:
یہ باب اس لمحے کا بیان ہے جب بنی اسرائیل قوم نے قرب رب کے بجائے تخت و بادشاہ کو چُنا، اور جب سموئیلؑ نبی خاموش ہوا، تو آسمان نے فیصلہ سنانا بند کر دیا۔ حضرت سموئیلؑ کی دعاؤں میں اب وہ شور نہ تھا کیونکہ جو کچھ ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔حضرت ساؤلؓ کی تاجپوشی ربّ العلیم کا وہی قانون تھا جو ہمیں آج بھی سکھاتا ہے:
“اگر تم دنیا مانگو گے، تو وہ ملے گی مگر اس کے ساتھ تمہاری روح، تمہاری راہ اور تمہارا ربّ بھی خاموش ہو جائے گا۔”