بنی اسرائیل کی واپسی اور اصلاح
وہ گھڑی آ پہنچی تھی جب تابوتِ عہد بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے جا چکا تھا، قیادت بکھر چکی تھی، اور بنی اسرائیل قوم کے سینے ساکت ہو چکے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب روحانی سکوت چیخنے لگا، اور شکستہ دل آہ و فغاں کی زبان بن گئے۔ جب نہ کوئی نجات دہندہ دکھائی دے، نہ کوئی نعرہ باقی رہے تو ربّ الغفور خود ندامت کی زبان میں بولتا ہے۔ ایسے ہی لمحے میں توبہ کی روشنی ٹمٹماتی ہے، جو ابتدا میں دھندلی ہوتی ہے، مگر پھر دلوں کو منور کر دیتی ہے۔
بنی اسرائیل کا توبہ کی طرف رجوع
بنی اسرائیل قوم، جو کبھی تابوتِ عہد کو معجزات اور ہتھیار سمجھتی تھی، اب جان چکی تھی کہ ربّ العرش کا قرب، دل کے سجدے میں ہے۔
زبانیں تائب ہوئیں، آنکھیں اشک بار ہوئیں، اور دلوں کے بت ٹوٹنے لگے وہ بت جو دلوں میں چھپے تھے: دنیا، طاقت، شہرت۔
اب کوئی نشان نہ تھا، کوئی (تابوتِ عہد)صندوق نہ تھا صرف ندامت اور نیاز باقی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بنی اسرائیل قوم نے خود کو ہار کر، ربّ کی بارگاہ میں جیت مانگنا شروع کی۔
حضرت سموئیلؑ کی قیادت میں روحانی اصلاح
حضرت سموئیلؑ کی قیادت وہ روشنی تھی جو ظاہری شکست کے ملبے میں باطن کی تعمیر کر رہی تھی۔ ان کے اقوال، ان کی دعائیں، ان کا سکوت سب کچھ تربیتِ دل، تجدیدِ عہد، اور تزکیۂ نفس تھا۔
انہوں نے بنی اسرائیل قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دشمن کو کیسے ہرایا جائے، بلکہ یہ سکھایا کہ نفس کو کیسے مغلوب کیا جائے۔
وہ بنی اسرائیل کا راہنما نہ صرف رہبر تھا، بلکہ مرشدِ دل بھی تھا جو صرف راہیں نہیں، دلوں کی روشنی بھی دکھاتا ہے۔
قربانی کا نظام اور دلوں کی نرمی
حضرت سموئیلؑ نے جب رب تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی تو وہ صرف خون کی پیشکش نہ تھی بلکہ وہ دل کا نذرانہ تھا۔
تب بنی اسرائیل قوم نے محسوس کیا کہ قربانی وہی مقبول ہے جس میں رگیں نہیں، رقت ہو بلکہ جس میں گوشت نہیں، گریہ ہو۔
اسی گریہ میں ربّ السمیع نے رحمت کا دروازہ کھولا۔ وہ فضائیں جو کبھی لعنت سے بوجھل تھیں، اب قبولیت کی بارش سے تر ہو چکی تھیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب قربانی فقط رسم سے نکل کر، روح کی بندگی بن گئی۔
کنعانیوں سے نجات: ربّ کی مدد
اب نہ بنی اسرائیل کے پاس زیادہ لشکر تھا، نہ تابوتِ عہد، نہ کوئی ظاہری سہارا۔ لیکن جب دل ربّ القدوس کی طرف جھک جائیں، تو زمین پر نہیں، عرش پر فیصلے ہوتے ہیں۔
کنعانی پیچھے ہٹے، سازشیں ریزہ ریزہ ہوئیں، اور نجات آسمان سے اُتری یہ وہ فتح تھی جو خون سے نہیں، اشکوں سے خریدی گئی تھی۔
خواجہ حسن بصریؒ
در دلِ تائب چو آید آہِ سوزان نیم شب
عفوِ حق آید ز بالا، خفتہ را گردد سبب
ترجمہ:
جب ایک تائب دل سے آدھی رات میں سوز بھری آہ نکلے،
تو ربّ کا عفو آسمان سے اترتا ہے، اور ساری سوئی ہوئی تقدیر جاگ اٹھتی ہے۔
تشریح:
یہ شعر اس سچائی کو بیان کرتا ہے کہ توبہ محض الفاظ نہیں، ایک بیداری ہے۔
وہ آہ، جو سچ میں دل سے نکلے، ربّ العالمین کے عرش کو ہلا دیتی ہے۔ بنی اسرائیل کی وہ توبہ، جو حضرت سموئیلؑ کی قیادت میں گریہ، قربانی اور رجوع میں ڈھل گئی وہی ربّ کی طرف سے فتح کا سبب بنی کیونکہ وہی توبہ قبول ہوتی ہے جو اپنی انا کو دفن کر کے پیش کی جائے۔
نتائج:
- توبہ وہ راستہ ہے جو شکست کے بعد بھی فتح کی طرف لے جاتا ہے، بشرطیکہ دل جھک جائیں۔
- قیادت جب باطن سے جڑے، تو قوم کے ظاہر و باطن دونوں روشن ہو جاتے ہیں۔
- قربانی کی اصل قیمت خون میں نہیں، اخلاص اور ندامت میں ہے۔
- جب قوم باطن میں صلح کرتی ہے، تو دشمن خود بخود پسپا ہو جاتا ہے۔
- ظاہری علامتوں کے بغیر بھی ربّ العالمین کی مدد ممکن ہے، اگر نیت سچی ہو۔
اختتامیہ:
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ ربّ الغفور کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، مگر وہ دل کی توبہ مانگتا ہے، ظاہری نعرے نہیں۔ بنی اسرائیل نے وہ سب کچھ کھو دیا تھا، تابوتِ عہد، قیادت، فتوحات مگر جب انہوں نے خود کو ربّ السمیع کے قدموں میں رکھ دیا،
تو فتح، عزت، اور قرب دوبارہ اُن کے دامن میں اترنے لگا۔
یہی وہ راز ہے:
کہ فتح ہمیشہ باہر سے نہیں، اندر سے آتی ہے دل کی سچائی سے۔