تابوتِ عہد کا چھن جانا اور بنی اسرائیل کو شکست
جب بنی اسرائیل قوم نے دشمنوں کا سامنا کیا، تو انہوں نے کہا:
“تابوتِ عہد کو لے آؤ، فتح ہماری ہے!”
مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ تابوتِ عہد کوئی تعویذ نہیں، وہ ایک ذمہ داری ہے۔
بنی اسرائیل قوم تابوتِ عہد کو میدان میں لایا، مگر دلوں میں اطاعت نہ تھی، اور عمل میں اخلاص نہ تھا۔ وہ اپنے ماضی کے معجزات کو حال کی نجات سمجھ بیٹھے تھے، اور یہ بھول گئے تھے کہ طاقت، تابوتِ عہد میں نہیں بلکہ فرمانبرداری میں ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بنی اسرائیل قوم شکست کھا گئے۔ ہزاروں بنی اسرائیلی قتل ہوئے، اور دشمن نے تابوتِ عہد کو چھین لیا گیا۔
عہدِ الٰہی کی بےحرمتی اور عتاب
تابوتِ عہد کے چھن جانے کا مطلب صرف ایک شکست نہ تھا بلکہ یہ ربّ الغیوب کی ناراضی کی انتہا تھی۔ بنی اسرائیل قوم، جس نے تابوتِ عہد کو حرمت کے بجائے ہتھیار سمجھا، اُسے ربّ الرؤوف کی حضوری سے محروم ہونا پڑا۔ یہ عتاب اس لئے نہ تھا کہ تابوتِ عہد گرا، بلکہ اس لئے کہ دل جھکنا بھول گئے تھے۔
ربّ العالمین کا عہد ایک رسمی لکڑی کا صندوق نہیں بلکہ وہ ایک روحانی زندگی کی ضمانت ہے، جو تقویٰ، سچائی اور انکسار سے قائم رہتی ہے۔
ایلیؓ کی وفات اور نئے عہد کا آغاز
جب ایلیؓ نے تابوتِ عہد کے چھن جانے کی خبر سنی، تو اُس کا دل لرز گیا۔
نہ بیٹوں کی موت، نہ شکست کی صدا بلکہ تابوتِ عہد کا چھن جانا ہی وہ صدمہ تھا جس سے ایلیؓ کی روح پر لرزہ طاری ہو گیا۔
ایلیؓ زمین پر گرا اور اُسی وقت اُس کی وفات ہوگئی اب عہدِ قیادت ختم ہو گیا۔
وہ عہد جس میں بصیرت ماند پڑ چکی تھی، قیادت رسم میں بدل چکی تھی، اب ختم ہوا تاکہ ایک نیا، روشن اور باطنی سفر شروع ہو۔
حضرت سموئیلؑ، جو خاموشی میں تربیت پا چکے تھے، اب نئے دور کے نگہبان بننے کو تھے۔
طاقت نہیں، اطاعت اہم ہے
یہ واقعہ صرف شکست کی داستان نہیں، بلکہ عبرت کا دروازہ ہے۔ جب ایک قوم نے ایمان کو نشان میں قید کر لے، اور روح کو ظاہر میں دفن کر دے، تو ربّ العرش اُن سے اپنی نشانیاں بھی واپس لے لیتے ہیں۔
تابوتِ عہد کا چھن جانا اس لئے نہ تھا کہ دشمن طاقتور تھا بلکہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل قوم اپنے عہد سے ہٹ چکی تھی۔
طاقت اصل نہیں، اطاعت اصل ہے۔
تابوتِ عہد ہاتھ میں ہو، اور دل میں نافرمانی ہو تو ربّ الغفور کی حضوری رخصت ہو جاتی ہے۔
امام فخرالدین رازیؒ
دل از تابوتِ خالی گر کند امیدِ یاری
ندا آید ز غیبی: نیست در چوب اختیارِی
ترجمہ:
اگر خالی تابوت سے دل مدد کی امید رکھے،
تو غیب سے ندا آتی ہے: اختیار لکڑی میں نہیں ہوتا۔
تشریح:
یہ شعر اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ربّ تعالیٰ کی حضوری صرف علامات میں نہیں، بلکہ دل کی اطاعت، توجہ، اور تقویٰ میں ہے۔
قومِ بنی اسرائیل نے تابوتِ عہد کو روحانی تعلق کے بجائے فتح کا ذریعہ سمجھ لیا، اور یہی ان کی شکست کا آغاز بنا۔ جب دل ظاہر میں ڈھل جائے اور باطن سے خالی ہو، تو ربّ النور کی تجلی بھی چھن جاتی ہے۔
نتائج:
- تابوتِ عہد کی بےحرمتی اصل میں روحانی غفلت کی علامت ہے۔
- ربّ العالمین کا عہد علامات سے زیادہ اطاعت، عاجزی، اور وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔
- فتح کا راز تابوت میں نہیں، عہد کی سچائی میں ہے۔
- قیادت اگر رسم بن جائے، تو ربّ العزت نئی قیادت چُن لیتے ہیں۔
- روحانی شکست ہمیشہ غرور، غفلت اور بےاعتنائی کے بطن سے جنم لیتی ہے۔
اختتامیہ:
یہ باب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ربّ السمیع کی نشانیاں اُنہی کے پاس رہتی ہیں، جو اُس کے عہد کی حرمت جانتے ہوں۔ تابوتِ عہد کا چھن جانا صرف ایک قومی المیہ نہ تھا، بلکہ روحانی آنکھوں کے بند ہونے کا اعلان تھا۔
مگر یہی اعلان، ایک نئے آغاز کی تمہید بھی تھا۔ حضرت سموئیلؑ کا باطن روشن تھا اور جب قوم کی فضا تاریک ہو جائے، تو ربّ القدوس ایک دل کو جگا دیتا ہے، تاکہ وحی کا چراغ دوبارہ روشن ہو۔
اصل طاقت لکڑی کے صندوق میں نہیں دل کی سچائی میں ہے۔