تابوتِ عہد کی واپسی اور ادب کی عظمت
جب زمین پر دلوں کی سختی بڑھ جائے، جب عبادت رسم بن جائے، اور جب مقدّس نشان محض نشانی بن کر رہ جائے، تب ربِّ کریم اپنے بندوں کو یاد دلاتا ہے کہ اُس کی قربت صرف ادب، خشوع اور سچے سجدے سے حاصل ہوتی ہے۔ تابوتِ عہد کوئی سامان نہیں تھا، بلکہ وہ رب تعالیٰ کے حضور کا نشان تھا اُس کی حضوری کا مظہر، اُس کی شریعت کا امین، اور اُس کے وعدوں کی نشانی۔ حضرت داؤدؑ جب اس مقدّس نشان کو یروشلیم لانے کے لئے نکلے، تو یہ محض ایک رسمی جلوس نہ تھا، بلکہ یہ سجدے کی حرمت کا سفر تھا ایسا سفر جس میں ہر قدم پر ادب، ہر حرکت میں نیت کی پاکیزگی، اور ہر لمحے میں دل کی حضوری مطلوب تھی۔ اور جہاں ادب نہ ہو، وہاں قربت نہیں اُترتی، چاہے خیمہ ہاتھ میں ہو یا دل خالی۔ یہی وہ راز ہے جو خیمۂ عہد کے واقعے میں آشکار ہوتا ہے۔
تابوتِ عہد کی واپس ربّ کی حضوری کا عہد
جب حضرت داؤدؑ نے رب تعالیٰ کے حکم سے خلافت سنبھالی، اور یروشلیم کو روحانی قیادت کا مرکز بنایا، تو اُن کے دل میں ایک تمنا بیدار ہوئی وہ تمنا جو کسی تخت یا تاج کی نہیں، بلکہ اُس نشانِ حضوری کی تھی جو ربِ جلیل کے قرب کا مظہر تھا، اور جو تابوتِ عہد کہلاتا تھا۔ وہی مقدّس تابوتِ عہد، جس میں شریعت کی تختیاں محفوظ تھیں، وہی تابوتِ عہد جو بنی اسرائیل قوم کے گناہوں پر کفّارہ اور ربِ کریم کی شریعت کا امین تھا، اور جو برسوں سے نظرِ انداز پڑا ہوا تھا۔
حضرت داؤدؑ نے فیصلہ کیا کہ اب بنی اسرائیل قوم کے دلوں میں رب تعالیٰ کی یاد کو زندہ کیا جائے، اور اس کے لئے پہلا قدم یہی ہو کہ تابوتِ عہد کو واپس لایا جائے تاکہ ربِ جلیل کی حضوری دوبارہ بنی اسرائیل قوم کے قلب میں اُترے، اور بنی اسرائیل کی عبادت میں وہ خشیت اور ادب لوٹے جو خیمہ اُٹھائے بغیر ممکن نہ تھا۔
چنانچہ حضرت داؤدؑ نے چالیس ہزار افراد پر مشتمل ایک پاک لشکر کو تیار کیا، جو محض جنگی لشکر نہ تھا، بلکہ وہ عبادت گزاروں کا قافلہ تھا وہاں نغمے چھیڑے گئے، دف بجے، بربط بجائے گئے، اور شکر کے نعرے بلند کئے گئے۔ اور یہ سفر، تابوتِ عہد اٹھانے کا نہیں، بلکہ دلوں کو جھکانے کا تھا۔ وہ نشان جو بنی اسرائیل قوم کی بندگی کا مرکز تھا، اب دوبارہ بنی اسرائیل کی یاد میں جگایا جا رہا تھا، تاکہ رب تعالیٰ کی شریعت صرف کتب میں نہ رہے، بلکہ دلوں پر نقش ہو جائے۔
حضرت داؤدؑ کے قدم اس راہ پر اس طرح اٹھے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی نشانی کو لینے جا رہا ہو عاجزی، خشوع، اور شکر کے جذبے سے بھرپور۔ یہی تھا تابوتِ عہد کا سفر جو ظاہری طور پر ایک مقدّس تابوت کی واپسی، مگر حقیقت میں یہ بنی اسرائیل کے ایمان کی تجدید، عبادت کی عظمت کی بحالی، اور رب العزت کی حضوری کے عہد کی تجدید تھی۔
بے ادبی کا انجام اُزّا کی ہلاکت
جب تابوتِ عہد کو رب تعالیٰ کی حضوری اور شریعت کے احترام کے ساتھ واپس لانے کا سفر شروع ہوا، تو حضرت داؤدؑ اور قومِ اسرائیل نے شکر، نغمات اور عاجزی کے ساتھ قدم بڑھائے۔ لیکن سفر کے دوران وہ لمحہ بھی آیا جس نے ساری خوشی کو خاموشی میں بدل دیا، اور ربِ جلیل کی عظمت کے ادب کا وہ سبق دیا جو نسلوں کے لیے یادگار بن گیا۔
تابوتِ عہد کو ایک نئی بیل گاڑی پر رکھا گیا، اور اُسے دو بیل کھینچ رہے تھے، اور اُزّا اور اخیوع نامی دو افراد گاڑی کے ساتھ چل رہے تھے۔ جب یہ گاڑی کنٹھن کی کھلیان تک پہنچی، تو بیل تھوڑے سے لڑکھڑائے، اور اُزّا نے تابوتِ عہد کو گرنے سے بچانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اُس کا ارادہ شاید حفاظت کا تھا، مگر وہ حقیقت سے غافل تھا وہ یہ بھول گیا کہ تابوتِ عہد محض ایک صندوق نہیں، بلکہ ربّ کریم کی حضوری کی علامت ہے، جسے صرف مقرر کردہ طریقے، معیّن ہاتھوں، اور شریعت کے ادب کے ساتھ ہی چھوا جا سکتا ہے۔
اُزّا کی نیت خواہ جیسی بھی ہو، مگر اُس کا عمل ادب سے محروم تھا، اور اسی لمحے رب تعالیٰ کا قہر اُس پر نازل ہوا، اور وہ وہیں گر کر ہلاک ہو گیا۔ حضرت داؤدؑ خوف زدہ ہو گئے، اور اُن کے دل میں رب تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا رعب اُتر آیا۔ وہ جو شکر کے نغمے گا رہے تھے، خاموش ہو گئے، اور وہ جو خوشی سے چل رہے تھے، تھم گئے کیونکہ تابوتِ عہد کا ادب محض ظاہری حفاظت نہیں، بلکہ باطنی خشیت اور الٰہی طریقے کی پیروی کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی دائمی علامت بن گیا کہ رب تعالیٰ کی حضوری وہ مقام ہے جہاں ارادہ نہیں، بلکہ طریقہ معتبر ہوتا ہے؛ جہاں نیت سے زیادہ ادب کا وزن ہوتا ہے؛ اور جہاں بندگی اُس وقت قبول ہوتی ہے جب اُس میں خشوع، طریقۂ وحی، اور شریعت کا احترام شامل ہو۔ تابوتِ عہد کو چھونا اُس کی حفاظت نہیں، بلکہ اُس کی حرمت کو سمجھنا اصل ذمہ داری ہے اور جو ادب کے بغیر ربِ کریم کی حضوری میں ہاتھ بڑھاتا ہے، وہ اُس قرب سے ہلاک بھی ہو سکتا ہے جس میں ادب شامل نہ ہو۔
رقصِ شکر ، سجدہ و سرور کی کیفیات
جب تابوتِ عہد کو ادب اور شریعت کے مطابق دوبارہ اٹھایا گیا، اور رب تعالیٰ کی حضوری کے ساتھ اس کا سفر یروشلیم کی طرف رواں ہوا، تو حضرت داؤدؑ کی قیادت میں وہ منظر برپا ہوا جو بندگی اور شکر کی اعلیٰ ترین تصویر بن گیا۔ حضرت داؤدؑ نے خود کتان کی افود، ایک سادہ اور مقدس لباس، زیب تن کیا، اور وہ بادشاہ جو تخت پر بیٹھ سکتا تھا، اب ربّ کریم کے تابوتِ عہد کے سامنے جھومتا، رقص کرتا، اور اپنی روح کو سجدہ میں ڈھالتا ہوا دکھائی دیا۔
یہ رقص صرف ظاہری حرکت نہ تھی، بلکہ وہ سجدہ تھا جو جسم کے ذریعے ادا ہو رہا تھا، وہ شکر تھا جو دل کے طوفان سے اُمڈا تھا، اور وہ روحانی سرور تھا جو صرف اُسی پر اترتا ہے جس کا دل ربِ جلیل کی حضوری سے لبریز ہو۔ حضرت داؤدؑ نغموں کے ساتھ جھومتے، بانسری کی لے پر رقص کرتے، اور ہر قدم پر اپنے ربّ کریم کی کبریائی بیان کرتے ہوئے تابوتِ عہد کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اُن کے ساتھ کاہن، لاوی، موسیقار، اور پوری بنی اسرائیل قوم شریک تھی، اور یہ قافلہ کوئی لشکری جلوس نہ تھا، بلکہ یہ اُن دلوں کا سفر تھا جو اپنی حضوری کو پانے کے لیے سجدہ کے انداز میں جھک رہے تھے۔
جب تابوتِ عہد یروشلیم کے دروازوں کے قریب پہنچا، تو حضرت داؤدؑ نے جلوس کو روکا، قربانی دی، شکر ادا کیا، اور پھر نئے جذبے کے ساتھ جھومتے ہوئے اُس مقام کی طرف بڑھا جہاں رب تعالیٰ کی حضوری کو بسایا جانا تھا۔ وہ بادشاہ جو دنیا کے تاج پہنا سکتا تھا، آج صرف ربّ ذوالجلال کا بندہ بن کر ننگے پاؤں، عاجزی کے ساتھ رقص کر رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر فرحت، دل میں نور، اور زبان پر حمد کا زمزمہ تھا۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں بندگی صرف الفاظ نہ رہی، بلکہ وہ سرور بن گئی، جس میں جسم، روح، اور دل، سب ایک ہو گئے۔ حضرت داؤدؑ کا رقص ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دل ربّ العزت کی حضوری سے لبریز ہو جائے، تو وہ جھومتا ہے، اور جب سجدہ صرف پیشانی سے نہ، بلکہ وجود سے ادا ہو، تو وہی رقص شکر بن جاتا ہے، وہی حرکت عبادت، اور وہی جھکاؤ فلاح کی دلیل ہوتی ہے۔
دل کی حضوری، سجدے کی معراج
جب حضرت داؤدؑ نے تابوتِ عہد کو یروشلیم کے مقامِ عبادت میں رکھا، اور رب تعالیٰ کی حضوری کے لئے قربانی دی، تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ بادشاہ جسے رب تعالیٰ نے چُنا تھا، اُس کی نظر تخت پر نہیں، بلکہ سجدے کی حضوری پر تھی۔ حضرت داؤدؑ کا جھکاؤ زمین کی طرف نہ تھا، بلکہ اُس آسمانی رضا کی طرف تھا جو صرف اُن بندوں پر نازل ہوتی ہے جو بندگی کو تخت سے بلند جانتے ہیں۔
لیکن جب میکال بنتِ ساؤل جو داؤدؑ کی زوجہ تھی یہ منظر اپنے محل کی کھڑکی سے دیکھ رہی تھی، تو اُس نے حضرت داؤدؑ کو رب تعالیٰ کے حضور رقص کرتے، جھومتے، اور عاجزی کے ساتھ تابوتِ عہد کے ساتھ چلتے دیکھا، تو اُس کے دل میں حقارت پیدا ہوئی۔ اُس نے حضرت داؤدؑ کے سجدے کو شانِ بادشاہی کے خلاف جانا، اُس نے عاجزی کو عزت کے خلاف سمجھا، اور اُس نے دل کی حضوری کو ظاہری وقار سے کمتر گردانا۔
جب حضرت داؤدؑ گھر لوٹے کہ اپنے اہلِ خانہ کو برکت دیں، تو میکال نے طنز سے کہا: “آج اسرائیل کے بادشاہ نے کیسا جلال دکھایا، جیسے عام لوگ خود کو بےحجاب کرتے ہیں!” لیکن حضرت داؤدؑ نے جواب دیا: “میں نے یہ ربّ کے لئے کیا ہے، جس نے تیرے باپ اور اُس کے گھرانے کی جگہ مجھے چُنا؛ اور میں تو اس سے بھی زیادہ عاجز ہو جاؤں گا، اور اپنی نظر میں بھی حقیر بن جاؤں گا، اگر وہ ربّ کی رضا کے قریب لے جائے۔
یہی وہ مقام تھا جہاں رب تعالیٰ نے اپنے بندے داؤدؑ کے ذریعے یہ اعلان کروایا کہ “جو بندگی کو عزت دے گا، اُسے میں عزت دوں گا؛ اور جو میری حضوری کو ہلکا جانے گا، وہ خود ہلکا ہو جائے گا۔” کتابِ مقدس گواہی دیتی ہے کہ میکال جس نے ربّ تعالیٰ کی حضوری کا مذاق اُڑایا اُس کی کوکھ عمر بھر بانجھ رہی کیونکہ عبادت صرف ظاہری سجدہ نہیں، بلکہ وہ باطنی حضوری ہے جو خشوع، ادب، اور مکمل اخلاص سے اُبھرتی ہے۔ حضرت داؤدؑ کے عمل سے ہمیں یہ سبق ملا کہ بندگی کا اصل مقام دل کی اُس جگہ پر ہوتا ہے جہاں دنیا کی کوئی شہرت، حیثیت یا فخر موجود نہ ہو جہاں صرف رب تعالیٰ کی طلب ہو، اُس کی رضا کی چاہ ہو، اور وہی دل ہو جو تابوتِ عہد کے سامنے جھک کر اپنی اصل پہچان پاتا ہے۔
حافظ شیرازیؒ
بندگی کن، کہ ز تختِ سلیماں بہتر است
سجدهای راست، ز صد تاج و نگیں برتر است
ترجمہ:
بندگی اختیار کر، کیونکہ یہ حضرت سلیمانؑ کے تخت سے بہتر ہے؛
ایک سچا سجدہ، سینکڑوں تاج و تخت اور نگینوں سے بلند تر ہے۔
تشریح:
یہ شعر حضرت داؤدؑ کی عبادت کی شان کا آئینہ دار ہے۔ حافظؒ یاد دلاتے ہیں کہ عبادت کی عزت دنیا کے کسی تخت یا مال و جاہ سے کم نہیں بلکہ کہیں بلند ہے۔ حضرت داؤدؑ نبی اور بادشاہ تھے، اُن کے پاس سلطنت بھی تھی، مگر اُن کی روح سجدے کی خاک پر تھی۔ اُنہوں نے ہمیں سکھایا کہ وہ ایک سچا سجدہ جو ادب، خشوع، عاجزی اور اخلاص سے کیا جائے وہ ہزاروں سونے کے تاج، تختوں، اور عظمتوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ یہ سجدہ دلوں کو جھکاتا ہے، نفس کو پاک کرتا ہے، اور روح کو ربِ کریم کے قریب لے جاتا ہے۔
نتائج
- تابوتِ عہد کی واپسی حضرت داؤدؑ کے روحانی سفر کی گہرائی اور امت کی عبادتی تجدید کا اعلان تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عبادت قوموں کی روحانی شناخت ہے۔
- اُزّا کی ہلاکت ہمیں سکھاتی ہے کہ رب تعالیٰ کے قرب کے لمحات میں ادب لازم ہے، اور بے ادبی، چاہے نیت کتنی ہی خالص کیوں نہ ہو، حضوری کے دروازے بند کر دیتی ہے۔
- حضرت داؤدؑ کی رقص و سرور کے ساتھ بندگی اس بات کا اظہار ہے کہ سچی خوشی صرف رب تعالیٰ کی حضوری میں ہے، اور شکر کے نغمے عبادت کا حقیقی جمال ہیں۔
- حضرت داؤدؑ پر دنیا کی ملامت ہوئی، مگر اُنہوں نے رب تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دی اور یہ سکھاتا ہے کہ بندہ وہی ہے جو لوگوں کی نظروں میں نہیں، رب تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو۔
- عبادت صرف عمل نہیں، ادب ہے؛ اور وہی عبادت مقبول ہے جس میں عاجزی، احترام، اور حضوری کا شعور ہو۔
اختتامیہ
یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عبادت کا اصل چہرہ سجدہ نہیں، ادب میں لپٹا سجدہ ہے؛ وہ سجدہ جو زبان سے نہیں، دل سے ہو۔ حضرت داؤدؑ ہمیں سکھاتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی حضوری محض رسم نہیں، وہ ایک روحانی مقام ہے، جس تک پہنچنے کے لئے ادب، خشیت، تواضع اور عشقِ بندگی درکار ہے۔ جو دل ادب میں جھک جائے، وہی دل عرش کی حضوری کو محسوس کر سکتا ہے۔ اور یہی ہے عبادت کی عزت جو زمین سے اٹھتی ہے، مگر آسمان پر لکھی جاتی ہے۔