جنم کے نابینا شخص کا شفا پانا

ایک دن سیدنا حضرت عیسیٰؑ  کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آپؑ کی نظر ایک پیدائشی نابینا شخص پر پڑی۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے حواریینؓ آپؑ سے پوچھنے لگے: ”قبلہ! کس کے گناہوں کا نتیجہ ہے کہ یہ شخص نابینا پیدا ہؤا ہے؟ رِحمِ مادر میں اِس کے اپنے گناہوں کا؟ یا اِس کے والدین کے گناہوں کا؟“ سیدنا حضرت عیسٰی ؑنے فرمایا: ”یہ اِس لئے نابینا پیدا نہیں ہؤا کہ اِس نے گناہ کیا یا اِس کے والدین نے، بلکہ اِس لئے کہ یہ اللہ کی قدرت کے اظہار کا ذریعہ بن جائے۔ جس نے مابدولت کو اپنا نمائندہ بنا کے بھیجا ہے، اُس کے کام ہم سب کو دن ڈھلنے سے پہلے ہی روشنی میں کر لینے لازم ہیں۔ اِس لئے کہ کفر کی رات سر پر ہے، پھر کوئی کام نہ ہو سکے گا۔ جب تک مَیں اِس دُنیائے کُفر میں ہُوں، مَیں اِس دنیا کے لئے نورِ ہدایت ہوں!“ یہ فرمانے کے بعد سیدنا حضرت عیسٰی ؑنے لعابِ دہن خاک میں ملا کرخاکِ شفا بنائی اور اُس نابینا شخص کی آنکھوں پر لیپ کر دیا اور فرمایا: ”اب جاؤ! اپنی آنکھیں شِیلوؔخ کے تالاب میں دھو ڈالو!“ ”شِیلوؔخ“ کے معنٰی ہیں ”چشمۂ مُرسَل“۔ اُس نے جا کر تالاب کے پانی سے آنکھیں جو دھوئیں، تو بینا ہو کر لَوٹا! اُس کے ہمسائے اور محلّے کے لوگ جنھوں نے پہلے اُسے گداگری کرتے دیکھا تھا، چہ‌مہ‌گوئیاں کرنے لگے کہ ”ارے! یہ کہِیں وہی نابینا شخص تو نہیں جو بیٹھا گداگری کیا کرتا تھا؟“ کچھ کہنے لگے: ”ہاں، یہ وہی ہے!“ جب کہ دوسرے کہنے لگے: ”نہیں! بس اُس کا ہم‌ شکل ہے۔“ وہ نابینا شخص کہتا رہا: ”وہی ہوں! بھائیوں! وہی ہوں!“ اِس پر لوگ اُس سے پوچھنے لگے: ”پھر یہ آنکھیں کیسے کھل گئیں؟“ اُس نے جواب دیا: ” سیدنا حضرت عیسٰی ؑ نام کے ایک شخص نے میری آنکھوں پر اپنے لعابِ دہن والی خاکِ شفا لگا کر مجھ سے کہا: ’جا کر اپنی آنکھیں شِیلوؔخ کے تالاب میں دھو ڈالو!‘ مَیں نے ویسا ہی کیا اور مجھے آنکھیں مل گئیں!“ اُن لوگوں نے مزید استفسار کیا: ”کہاں ہے اب وہ؟“ اُس نے کہا: ”مجھے کیا معلوم؟“ لوگ اُس شخص کو جو پہلے نابینا ہؤا کرتا تھا، فریسی راہنماؤں کے پاس لے گئے کیوں کہ جس روز سیدنا حضرت عیسٰی ؑ نے لعابِ دہن خاک میں ملا کرخاکِ شفا بنائی اور اُس نابینا شخص کی آنکھوں کو نور بخشا تھا، یومُ السّبت تھا۔ اب کے فریسیوں نے اُس شخص سے پوچھا: ”تمہاری آنکھیں کیسے روشن ہوئیں؟“ اُس کا وہی جواب تھا کہ ”سیدنا حضرت عیسٰی ؑ نے میری آنکھوں پر لعاب آمیختہ خاکِ شفا لگائی، مَیں نے آنکھیں دھو ڈالِیں اور میری بینائی بحال ہو گئی!“ فریسیوں میں سے کچھ کا خیال تھا کہ ”جب وہ شخص یومُ السّبت ہی کو محترم نہیں گردانتا، تو ہادی مِنَ اللہ ہونے کا دعویدار کیسے ہو سکتا ہے؟“ دوسرے کہنے لگے: ”اگر گناہ‌گار ہے، تو ایسے عظیم معجزے کیسے دکھاتا پھر رہا ہے؟“ یوں سیدنا حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں اُن کی مختلف آراء ابھر کر سامنے آ گئیں۔ اُنھوں نے اُس سابقہ نابینا شخص سے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا: ”تم اُس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے تمہاری بینائی لوٹائی؟“ اُس نے کھلم کھلا اقرار کیا: ”وہ شخص نبئ برحق ہے۔“ وہ یہودی علماء اِتنی جلدی یہ سچ ماننے والے کب تھے کہ یہ شخصِ بینا کبھی نابینا بھی رہ چکا ہے؟ لہٰذا اُنھوں نے اُس سابق نابینا شخص کے ماں باپ کو بلوا بھیجا تاکہ اُس کے پیدائشی اندھےپن کے بارے میں بات کھل کر واضح ہو جائے۔ پس اُنھوں نے اُس شخص کے ماں باپ سے بڑے روکھے انداز میں پوچھا: ”کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ کیا یہ اندھا ہی پیدا ہؤا تھا؟ اگر ایسا ہی ہے، تو اب دیکھ کیسے سکتا ہے؟“ اُس کے والدین نے کہا: ”اِس میں کیا شک ہے کہ یہ ہمارا ہی بیٹا ہے اور پیدائشی طور پر نابینا ہی تھا۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ وہ اب دیکھ رہا ہے، مگر خدا معلوم اُس کی بینائی کیسے لوٹ آئی اور کس نے لوٹائی؟ وہ بالغ ہے، ذی شعور ہے، اپنے بارے میں خود ہی بتا سکتا ہے۔“ اُس سابق نابینا شخص کے والدین یہودی علماء کے خوف سے کھل کر بیان نہیں دے رہے تھے کیوں کہ علماء یہ پہلے ہی سے طے کر چکے تھے کہ ”اگر کوئی شخص  حضرت عیسٰیؑ کے مسیحِ موعود ہونے کا اقرار کرے، تو اُسے یہودی جماعت سے خارج کر دیا جائے!“ اِسی لئے اُس کے والدین نے کہا: ”وہ سنِ بلوغت کو پہنچ چکا ہے۔ اُسی سے پوچھ لیجئے!“ اب کے یہودی علماء نے خود اُس سابق نابینا شخص کو ایک بار پھر بلوا کر کہا: ”تم اللہ تعالٰی کی قَسم کھا کر صحیح صحیح بیان دو! ہمیں یقین ہے کہ وہ شخص شریعت کی خلاف‌ ورزی کرنے والا ہے۔“ اُس نے جواب دیا: ”مجھے کیا معلوم کہ وہ شریعت کی خلاف‌ ورزی کرنے والا ہے یا نہیں۔ مَیں تو صرف اِتنا جانتا ہوں کہ پہلے نابینا تھا، اب بینا ہوں!“ اُنھوں نے پوچھا: ”اُس نے تمہارے ساتھ ایسا کون سا عمل کیا جس سے تمہاری بینائی بحال ہو گئی؟“ اُس نے کہا: ”پہلے بھی کئی بار آپ لوگوں کو بتا چکا ہوں، مگر آپ لوگ دھیان ہی نہیں دیتے۔ دوبارہ کیوں سننا چاہتے ہیں؟ کہِیں آپ لوگ بھی تو اُس کے مرید نہیں بننا چاہتے؟“ اُنھوں نے اُسے بےنُقط سنائیں: ”اُس کا چیلا ہوگا تُو! ہم تو حضرت موسٰیؑ کے امتی ہیں۔ حضرت موسٰیؑ کی تو وہ شان ہے کہ اُنؑ سے اللہ جَلَّ شَانُہٗ ہم‌ کلام ہوئے! مگر یہ شخص؟ اِس کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں۔“ وہ کہنے لگا: ”بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ آپ لوگ ’عالِم‘ ہوتے ہوئے بھی اُس شخص کے بارے میں اندھیرے میں ہیں۔ اُس نے میری بےنور آنکھوں کو اجالوں سے روشناس کرا دیا۔ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کسی گناہ‌گار شخص کی دعا قبول نہیں کرتے۔ مگر اگر کوئی شخص متقی ہو اور خدا تعالٰی کی رضا پر چلتا ہو، تو اللہ تعالٰی اُسے قبولیتِ دعا کا رتبہ عطا کر دیتے ہیں۔ زمانۂ آفرینش سے آج تک یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی پیدائشی نابینا شخص کی بینائی لَوٹا دی گئی ہو۔ یہ شخص اگر مِن جانبِ اللہ نہ ہوتا، تو ایسا معجزہ کبھی بھی نہیں کر سکتا تھا۔“ اُنھوں نے اُس سے کہا: ”پیدائشی اندھے! گناہوں کی اولاد! لگا ہے ہمیں الٹی پٹی پڑھانے!“ یہ کہہ کر اُنھوں نے اُسے اُس عبادت خانے سے دھکے دے کر نکال دیا۔ جب سیدنا حضرت عیسٰی ؑنے سنا کہ ”اُسے عبادت خانے سے نکال دیا گیا ہے“، تو آپؑ نے اُسے ڈھونڈ کر اُس سے فرمایا: ”کیا تم امامِ بنی آدم پر ایمان رکھتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا: ”جنابِ عالی! کہاں ہے وہ ہستی کہ مَیں اُس پر ایمان لے آؤں؟“ سیدنا حضرت عیسٰی ؑنے فرمایا: ”تمہیں تو اب اُس کا دیدار بھی نصیب ہو چکا ہے اور اِس وقت وہی تم سے مخاطب ہے۔ ”مَیں خدائی فیصلہ کرنے کے لئے اِس دنیا میں آیا ہوں۔ جو لوگ بصیرت سے محروم ہیں، اُنھیں بصیرت عطا کر دوں اور جو اپنے آپ کو صاحبانِ بصیرت سمجھتے ہیں، اُن کے بصیرت سے محروم ہونے کا اعلان کر دوں۔“ چند ایک فریسی راہنما قریب کھڑے تھے۔ اُنھوں نے یہ سن لیا، تو  سیدنا حضرت عیسٰی ؑسے کہنے لگے: ”کیا ہم بھی ابھی تک اندھے ہیں؟“ سیدنا حضرت عیسٰی ؑنے فرمایا: ”اگر تم نابینا ہوتے، تو معذور سمجھے جاتے۔ مگر اب جب تم اپنے بینا و دانا ہونے کا دعوٰی کرتے ہو، تو تمہارا جرم قائم و دائم ہے۔ یوں سیدنا حضرت عیسٰی ؑ نے اُس جنم کے نابینا شخص کو شفا بخشی تاکہ وہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر کرے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں