جنگلی گندم

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: ”سلطنتِ الٰہیہ کا ظہور ایسے سمجھ لو جیسے کسی زمیندار نے اپنے کھیت میں گندم کا اچھا بیج کاشت کروایا۔ پھر ہؤا یوں کہ رات کو لوگوں کے سو جانے کے بعد کاشت‌کار کا ایک دشمن آیا اور اُس کے کھیت میں جنگلی گندم کے بیج بو کے چلتا بنا۔ جب گندم کے پودے بڑھے اور بالیں نکل آئِیں، تو اُن کے ساتھ ساتھ جنگلی گندم بھی نظر آنے لگی۔ اُس زمیندار کے نوکر آ کر اُس سے کہنے لگے: مالک! آپ نے تو اپنے کھیت میں گندم کا اچھا بیج بویا تھا۔ پھر اُس میں جنگلی گندم کہاں سے آ گئی؟‘ زمیندار کہنے لگا: ’یہ کسی دشمن کا کیا دھرا ہے۔‘ نوکروں نے عرض کی: ’اگر اجازت دیں، تو ہم اِسے چُن چُن کر جڑ سے اکھاڑ دیں؟‘ زمیندار کہنے لگا: ’ابھی نہیں! ایسا نہ ہو کہ جنگلی گندم کے ساتھ ساتھ گندم کے پودے بھی اُکھڑ جائیں۔ فصل کی کٹائی تک دونوں کو بڑھنے دو! کٹائی کے وقت کاٹنے والوں سے کہہ دوں‌گا کہ ”پہلے جنگلی گندم کو علٰیحدہ کرتے جاؤ، پھر اُس کے گٹھے باندھ کر اُسے جلا دو! بعد میں گندم کو میرے گودام میں جمع کر دو۔

پھر سیدنا عیسٰیؑ اُس ہجوم کو وہیں چھوڑ کر واپس گھر تشریف لے گئے۔ جب حواریینؓ نے آ کر عرض کی: ”حضورؑ! گندم کی فصل میں اُس جنگلی گندم کی حکایت کا مطلب ہم پر واضح فرما دیجئے!“ آپؑ نے فرمایا: ”اچھے بیج بونے والے سے مراد ہے مَیں امامِ بنی آدم۔ کھیت سے مراد ہے دنیا۔ گندم کے اچھے بیج سے مراد ہیں اللہ کے فرمانبردار بندے اور جنگلی گندم سے مراد ہیں شیطان کے چیلے۔ جنگلی گندم بونے والے دشمن سے مراد ہے ابلیس۔ فصل کی کٹائی کے وقت سے مراد ہے قیامت کا دن۔ فصل کاٹنے والوں سے مراد ہیں فرشتے۔ جس طرح کٹائی کے وقت جنگلی گندم کو گندم سے علٰیحدہ کر کے اُسے جلا دیتے ہیں، اِسی طرح قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہوگا۔ مَیں امامِ بنی آدم فرشتوں کو حکم دے کر بھیجوں‌گا۔ وہ گمراہ کرنے والوں اور خدا تعالیٰ کے نافرمان لوگوں کو چن چن کر الگ کر دیں‌گے۔ پھر اُنھیں نارِ جہنم میں پھینک دیں‌گے۔ وہاں وہ روتے پیٹتے دردناک عذاب میں رہیں‌گے۔ اُس وقت اللہ کے فرماں‌بردار بندوں کے چہرے پروردگار کی بارگاہ میں نورِ آفتاب کی مانند دمکتے ہوں‌گے۔ حق سننے کی توفیق ملی ہے، تو سنو۔