جہاد بالعدل داؤدؑ کی فتوحات اور رعایا میں انصاف

جب زمین پر قوت ظالموں کے ہاتھ ہو، جب شمشیر غرور کے ماتھے پر جھومے، اور جب رعایا کی آہ تختوں سے ٹکرا کر لوٹ آئے، تب ربّ کریم اپنے بندوں میں سے کسی کو اٹھاتا ہے جو صرف تلوار کا وار نہیں جانتا، بلکہ انصاف کا نور بھی ساتھ لاتا ہے۔ حضرت داؤدؑ وہی برگزیدہ بندے تھے، جنہیں ربّ ذوالجلال نے صرف جنگ کے لئے نہیں، بلکہ عدل کے قیام، ظلم کے قلع قمع، اور قوموں میں رحمت کے جھنڈے بلند کرنے کے لئے بھیجا۔

میدانِ جہاد قوت پر قاعدگی

حضرت داؤدؑ نے رب تعالیٰ کی مدد و نصرت سے اردگرد کی اقوام پر فتوحات حاصل کیں، تو وہ جنگیں محض زمین کے قبضے کے لئے نہ تھیں، بلکہ حق کے غلبے، عدل کے قیام، اور ظلم کے ازالے کے لئے تھیں۔ حضرت داؤدؑ کے ہر اقدام میں بندگی کا وزن تھا، ہر لشکرکشی کے پیچھے وحی کی رہنمائی، اور ہر ضربِ شمشیر کے پیچھے ربّ کی رضا کا نور تھا حضرت داؤدؑ نے موآبیوں، آرامیوں، زوبیوں، اور اُدومیوں پر فتح پائی، مگر ان فتوحات میں نہ انتقام کی آگ تھی، نہ غرور کا دھواں صرف “جہاد بالعدل” کی صداقت تھی۔

یہ وہ میدانِ جہاد تھا جہاں فوجیں میدان میں اتریں، مگر حکم ربّ کا تھا؛ جہاں تلواریں چمکیں، مگر عدل کی تلوار سب سے روشن تھی؛ جہاں دشمن زیر ہوئے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں، قانون کے ضابطے کے ساتھ تھا۔ حضرت داؤدؑ نے مفتوح قوموں پر ایسا نظم نافذ کیا جس میں عدل غالب، امن قائم، اور رب تعالیٰ کا خوف دلوں میں زندہ تھا۔
یہ وہ فتح تھی جس میں نہ زمین نے کراہ کی، نہ رعایا نے آ کیونکہ یہ تلوار ربّ کی رضا کے تابع تھی، اور اس کی چال رب تعالیٰ کے حکم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔


رعایا کی راحت اور عدل کا نظام

جب فتوحات مکمل ہوئیں، زمین پر سکون نازل ہوا، اور دشمنوں کی طاقت کو مغلوب کر دیا گیا، تو حضرت داؤدؑ نے اپنی سلطنت کو فقط قوت سے نہیں، بلکہ عدل سے مزین کیا۔ اُن کی حکومت کی بنیاد نہ فقط تخت و تلوار پر تھی، بلکہ انصاف، رحم، اور رب تعالیٰ کے خوف پر تھی۔ کتابِ مقدس کی گواہی ہے کہ “داؤدؑ نے سب بنی اسرائیل پر سلطنت کی، اور وہ اپنی تمام قوم پر عدل اور صداقت سے حکومت کرتا رہا۔”

یہ وہ لمحہ تھا جہاں ایک بادشاہ، نبی کے وقار سے نکل کر قاضی کی بصیرت میں داخل ہوا؛ وہ نہ فقط حاکم تھا، بلکہ راہنما، جو مظلوم کے آنسو کو فیصلہ بناتا، اور حق دار کے لئے دروازہ کھولتا۔ حضرت داؤدؑ کی عدالت میں نہ مالدار کی حمایت تھی، نہ کمزور کی تحقیر؛ وہاں صرف وہی معتبر تھا جو حق پر تھا، چاہے وہ غریب ہو یا امیر۔

عدل اُن کی سلطنت کا ستون تھا، اور رعایا اُس عدل کی چھاؤں میں آسودہ۔ حضرت داؤدؑ کی سلطنت میں امن صرف تلوار سے نہ آیا، بلکہ عدل کے سایے سے پھیلا۔ ہر فریادی کو رسائی، ہر محتاج کو پناہ، اور ہر کمزور کو تحفظ ملا کیونکہ اُس وقت عدل نے تخت پر قیام کیا تھا، اور تقویٰ نے حکومت کی باگ تھام رکھی تھی۔


رحم و احسان کا دروازہ

تختِ سلطنت پر حضرت داؤدؑ کا عدل سایہ فگن ہو چکا، اور رعایا راحت و سکون کی فضا میں سانس لینے لگی، تب اُنہوں نے اپنی سلطنت کو صرف قانون سے نہیں، بلکہ احسان سے بھی آراستہ فرمایا۔
حضرت داؤدؑ فرمایا: “کیا ساؤل کے گھرانے میں کوئی باقی ہے جس پر میں حضرت یونتن کے سبب سے احسان کروں؟” یہ وہ آواز تھی جو تخت سے نہیں، دل سے نکلی تھی وہ دل جو وعدوں کی وفا، محبت کی پاسداری، اور احسان کی طلب سے لبریز تھا۔
حضرت داؤدؑ نے جب میفیبوشِت، حضرت یونتن کے بیٹے کو اپنے دربار میں بلایا جو معزور تھا (لنگڑا) تھا ، تب داؤدؑ نہ تو اُس کے ضعف پر طنز کی، نہ اُس کی کمزوری کو عیب جانا، بلکہ اُسے وہ مقام دیا جو شرفاء کو دیا جاتا ہے۔
حضرت داؤدؑ نے فرمایا: “تو ہمیشہ میرے دسترخوان پر کھایا کرے گا۔” یہ صرف رزق کی فراہمی نہ تھی، بلکہ محبت کا اعلان، عزت کی بحالی، اور وفاداری کا انعام تھا۔

پھر جب بنی عمون کے بادشاہ کی وفات ہوئی، اور حضرت داؤدؑ نے حنّون کے پاس تعزیت کے سفیر بھیجے، تو ان کی نیت امن تھی، دل میں نرمی تھی، اور زبان پر خیر تھی۔ مگر جب ان کے قاصدوں کی توہین ہوئی، تب بھی حضرت داؤدؑ نے پہلے تحمل، پھر تدبیر سے کام لیا کیونکہ وہ احسان کرنے والا بادشاہ تھا، جو امن سے ابتدا کرتا، اور دفاع سے نتیجہ نکالتا تھا۔

یہی ہے ربّی قیادت کا چہرہ جہاں بادشاہی میں جاہ و جلال کے ساتھ، رحم و وفا کا نور بھی ہوتا ہے۔ حضرت داؤدؑ نے ہمیں سکھایا کہ طاقت کی سب سے بلند صورت، معاف کر دینا ہے؛ اور تخت کا سب سے عظیم فیصلہ، کسی ٹوٹے دل کو عزت عطا کرنا ہے۔


بصیرت کی تلوار، تدبیر کا جہاد

جب ظلم کا لشکر بڑھے، اور دشمن چھپے ارادے سے سامنے آئے، تب محض تلوار نہیں، عقل اور وحی کی روشنی درکار ہوتی ہے۔ حضرت داؤدؑ، جنہیں ربّ کریم نے نہ صرف نبی بنایا بلکہ بادشاہ بھی، اُنہوں نے ہمیں سکھایا کہ فتح صرف قوت سے نہیں، بلکہ فہم، حکمت اور نظم سے حاصل ہوتی ہے۔

جب بنی عمون اور ارامی لشکر نے حضرت داؤدؑ کے قاصدوں کی توہین کے بعد لڑائی کی تیاری کی، تو حضرت داؤدؑ نے بلا عجلت کے، نہ شور و غضب کے ساتھ، بلکہ مکمل تدبیر سے جواب دیا۔ حضرت داؤدؑ نے اپنے لشکر کو جمع کیا، اُنہیں میدان میں ترتیب دیا، اور جوآب کو سردار مقرر کیا۔

جب جوآب نے جب دیکھا کہ دشمن دونوں اطراف سے گھیرا ڈالنے والا ہے، تو حضرت داؤدؑ کی ترتیب کے مطابق اُنہوں نے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک کو اپنے ساتھ رکھا، اور دوسرا حصہ اپنے بھائی ابیشے کے حوالے کیا۔ اور پھر وہ جملہ کہا جو آج بھی ہر جہادِ عدل کا شعار ہے:

“اگر ارامی ہم پر سختی سے چھا جائیں، تو تُو میرے لئے کھڑا ہو جانا، اور اگر بنی عمون تجھ پر غالب آئیں، تو میں تیرے لئے نکل آؤں گا؛ پس ہمت باندھ، صبر کے ساتھ ڈٹ جا، اور اللہ کی راہ میں ہماری قوم بنی اسرائیل، اور رب تعالیٰ کے شہروں کے دفاع میں استقامت کے ساتھ لڑ۔ اور انجام کار، وہی ہوگا جو ہمارے ربّ عظیم کی حکمت میں بہتر ہو۔”

یہ محض ایک جنگی حکم نہ تھا یہ ایمان کی بنیاد، نصرت کی امید، اور تدبیر کا عروج تھا۔ حضرت داؤدؑ کی حکمتِ حرب، ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ قیادت وہی ہے جو حملے سے پہلے دلوں کو سجدے میں جھکائے، اور صفوں کو عدل سے ترتیب دے۔ اُنہوں نے ہمیں سکھایا کہ جنگ اگر عدل سے ہو، تو اُس کی تیاری بھی توازن، بصیرت اور توکل سے ہونی چاہیے۔ پس، حضرت داؤدؑ کی ہر فتح، درحقیقت اُس سجدے کا ثمر تھی جو اُنہوں نے میدان سے پہلے بارگاہِ ربّ العزت میں کیا؛ اور اُن کی ہر تدبیر، اُس حکمت کا پرتو تھی جو عرش سے دل پر نازل ہوتی ہے۔


تخت کے سائے میں سجدے کا چراغ

حضرت داؤدؑ وہ بادشاہ تھے جن کے ہاتھ میں تلوار تھی، مگر دل میں خشیتِ ربّانی کا نور۔ وہ جب میدانِ جنگ میں دشمنوں پر غالب آئے، اور زمین اُن کے قدموں کے نیچے سرنگوں ہوئی، تو اُن کے قدم گھمنڈ کی طرف نہ بڑھے، بلکہ سجدے کی طرف جھکے۔ اُن کی سلطنت، صرف نیزوں اور صفوں سے نہ تھی، بلکہ عدل، رحم، اور تقویٰ کے سایے میں پروان چڑھی۔ اور لکھا ہے کہ “حضرت داؤدؑ نے تمام اسرائیل پر سلطنت کی، اور اپنی قوم پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی۔”

یہ وہ عدل نہ تھا جو صرف قانون سے نکلتا ہے، بلکہ وہ تقویٰ سے پیدا ہوتا ہے وہ عدل جو رب تعالیٰ کی حضوری میں بندے کی عاجزی سے جنم لیتا ہے، اور جو تخت کو محراب بنا دیتا ہے۔ حضرت داؤدؑ جب غالب ہوئے، تب بھی اپنے ربّ کے حضور عاجز رہے؛ وہ جو لشکروں کے سردار تھے، ربّ الافواج کے آگے سربسجود تھے؛ وہ جو بادشاہِ وقت تھے، اللہ کے حکم کے بندے تھے؛ اور یہی وہ مقام تھا جہاں حضرت داؤدؑ کی قوت، تقویٰ کے تابع تھی جس سے نہ صرف سرحدیں محفوظ ہوئیں، بلکہ دلوں کے دروازے بھی کھلے، اور رعایا نے امن کا ذائقہ چکھا۔


نظامی گنجویؒ

به عدل است بنیاد ملک استوار
که ظالم برد تاج و تختش ز کار

ترجمہ:
عدل ہی ہے جس سے سلطنت کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے،
کیونکہ ظالم کو اس کا ظلم، تخت سے محروم کر دیتا ہے۔

تشریح:
نظامی کی یہ حکیمانہ بات حضرت داؤدؑ کی حکومت پر بالکل صادق آتی ہے۔ اُنہوں نے اپنی سلطنت کو ظلم، جبر یا انتقام پر نہیں، بلکہ عدل، رحم، اور تقویٰ کی بنیادوں پر قائم کیا۔ ان کا اقتدار رب تعالیٰ کے نور سے جُڑا ہوا تھا، اسی لیے وہ باقی رہا۔ جبکہ ظلم پر قائم بادشاہتیں جلد بکھر جاتی ہیں۔


نتائج :

  1. جہاد بالعدل حضرت داؤدؑ کی قیادت کا مرکزی اصول تھا، جو ظاہری فتح سے زیادہ، روحانی اصلاح اور سماجی عدل پر مرکوز تھا۔
  2. سلطنت کی اصل طاقت عقل، رحم، اور رب تعالیٰ کے خوف میں ہے، جو عدل کے ذریعے رعایا کے دل جیتتی ہے، نہ کہ صرف شمشیر کے زور پر۔
  3. قائد وہی ہوتا ہے جو دشمن سے پہلے اپنے نفس کو زیر کرے، اور جس کا پہلا اقدام جنگ نہیں بلکہ صلح، مشورہ اور تدبیر ہو۔
  4. حضرت داؤدؑ نے دکھایا کہ اقتدار، کمزوروں کے حقوق کی حفاظت کا نام ہے؛ طاقت، معافی کی بلند ترین شکل ہے؛ اور رہنمائی، رحم کے ذریعے دائمی اثر پیدا کرتی ہے۔
  5. دعا، تدبیر، اور عدل تین ستون ہیں جن پر نبیوں کی قیادت کھڑی ہوتی ہے۔ حضرت داؤدؑ نے ان تینوں کو سجدے کے چراغ سے روشن رکھا۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں یہ بصیرت عطا کرتا ہے کہ اگر تلوار عدل کے تابع ہو، تخت رحم کے سائے میں ہو، اور حکمرانی خدا کے حکم کی روشنی میں ہو، تو ایسی سلطنتیں زمین پر خدا کے وعدوں کا عکس بن جاتی ہیں۔
حضرت داؤدؑ کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ جہاد، صرف دشمن کو شکست دینے کا عمل نہیں، بلکہ دلوں کو روشنی دینے، کمزوروں کو پناہ دینے، اور ظالموں کو انصاف کے دائرے میں لانے کا نام ہے۔ یہ سبق ایک عظیم بادشاہ کی کہانی نہیں، بلکہ ہر اس دل کی تعلیم ہے جو عدل کے لئے لڑنا اور رحم کے ساتھ جینا چاہے۔ ایسا جہاد، ربّ العزت کے حضور مقبول ہے جو خون سے نہیں، نیت کی پاکی سے، اور حکمت کی روشنی سے جاری ہوتا ہے۔