حضرت داؤدؑ کی وصیت اور سلیمانؑ کی تاجپوشی

حضرت داؤدؑ کی حیاتِ مبارکہ کا یہ آخری باب محض ایک ضعیف بادشاہ کی جسمانی ناتوانی کا بیان نہیں، بلکہ ایک جلیل القدر نبی کے شعور، بصیرت، اور وفاداریِ الٰہی کے کڑے امتحان کا آئینہ ہے۔ اگرچہ جسم فرسودہ ہو چکا تھا، مگر قلبِ مومن ایمان کے نور سے منور تھا۔ نفس بےقرار تھا، مگر فیصلہ صرف اُس ذات کے حکم پر منحصر تھا جس کے قبضۂ قدرت میں سلطنت و نبوت دونوں کی کنجیاں ہیں۔ اقتدار کی منتقلی کا یہ لمحہ صرف تخت و تاج کی سیاسی گردش نہ تھی بلکہ ایک روحانی امانت کا انتقال تھا، جو تقویٰ، حکمت اور ربانی مشورہ کا طالب تھا۔

حضرت داؤدؑ کی عمر کے آخری ایام

حضرت داؤدؑ اپنی عمرِ مبارک کے آخری لمحات میں ضعفِ جسمانی کا شکار تھے۔ اُن کا وجود بسترِ علالت پر ساکت، اور دربارِ دنیاوی سے ظاہری کنارہ کش تھا۔ مگر داؤدؑ کی اس ظاہری کمزوری کے پس منظر میں ایک ایسی روحانی عظمت چھپی تھی جو صرف اہلِ بصیرت کو دکھائی دیتی ہے۔ ان کا دل، ایمان کے چراغ سے روشن، اور باطن رب کی رضا کے نور سے معمور تھا۔

حضرت داؤدؑ جانتے تھے کہ سلطنت کی بقا، طاقت و شمشیر سے نہیں بلکہ رب تعالیٰ کے حکم کی تعمیل، حق کی پاسبانی، اور اطاعتِ ربانی کے تسلسل سے قائم رہتی ہے۔ جب ہاتھوں سے اختیار چھن جائے، تو دل میں یقین پیدا ہوتا ہے؛ اور جب زبان خاموش ہو جائے، تو روح رب سے ہمکلام ہو جاتی ہے۔ حضرت داؤدؑ کا یہ وقار اسی خاموشی میں جھلکتا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب جسم نے فراغت پائی، مگر روح نے بیداری اور استقامت کی چادر اوڑھ لی۔


وارثِ ناحق کا فتنہ

جب قیادت کا منصب خالی دکھائی دیتا ہے، تو بسا اوقات وہ دل آگے بڑھتے ہیں جو ربّ کی رضا سے خالی ہوتے ہیں۔ ادونیاہ، حضرت داؤدؑ کا بیٹا، اُس وقت سامنے آیا جب باپ ضعف کی حالت میں تھا اور سلطنت ایک خاموشی میں ملفوف۔ مگر ادونیاہ نے اس خاموشی کو رضا کا سایہ سمجھا، اور اپنے دل کی چاہت کو حکمِ الٰہی پر ترجیح دی۔

اس نے اپنے گرد چاپلوسوں کا ہجوم اکٹھا کیا، سیاسی و لشکری حمایت حاصل کی، اور اپنے لئے وہ عزت قائم کرنے کی کوشش کی جو صرف رب تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی خاموشی کو اس نے کمزوری سمجھا، اور منصبِ خلافت پر اپنا دعویٰ جتایا۔

یہ فتنہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب قیادت کی بنیاد تقویٰ کے بجائے خواہش بن جائے، تو اقتدار زہر بن جاتا ہے۔ ادونیاہ کی بغاوت فقط خانوادے کا انتشار نہ تھی، بلکہ وہ روحانی ترتیب کے خلاف کھلی سرکشی تھی۔ جہاں رب تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو چُنا، وہاں ادونیاہ کی پیش قدمی صرف فتنہ تھی، نہ کہ فضل۔

حضرت داؤدؑ کی خاموشی، رب تعالیٰ پر کامل بھروسا اور ربانی منصوبے کا انتظار تھا؛ اور ادونیاہ کی آواز، اُس خواہش کا مظہر جو نفس کو تاج کا حق دار سمجھتی ہے، حالانکہ رب کی سلطنت صرف اُن کے لیے ہے جو اُس کے حکم کے تابع ہوں۔


حضرت ناتن اور بت سبعہ کا تدبر

جب فتنے کی آندھی اٹھتی ہے اور حق کی راہ پر گرد بیٹھنے لگتی ہے، تو رب تعالیٰ ایسے دلوں کو بیدار کرتا ہے جو خاموشی میں حکمت کا چراغ جلاتے ہیں۔ ناتن نبی، جو ربِ کریم کی وحی کا حامل اور حضرت داؤدؑ کا معتمد مشیر تھا، اُس نے حالات کو صرف نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بصیرت سے پرکھا۔ اور بت سبعہ، وہ ماں جس کے بطن سے حضرت سلیمانؑ جیسے نبی و حکیم کا ظہور ہونا تھا، اُس نے اپنی ماں کی مامتہ، وفاداری اور دور اندیشی کو اختیار کیا۔

ان دونوں نے وقتی خاموشی کو دائمی گمراہی میں بدلنے نہیں دیا۔ حضرت ناتن نے حکمت سے حضرت داؤدؑ کے دل کو جھنجھوڑا اور بت سبعہ نے نرمی سے حق کی یاد دہانی کروائی۔ دونوں نے نہ الزام لگایا، نہ فتنہ پھیلایا، بلکہ تدبیر اور راستی کے ساتھ وہ بات کی جو رب تعالیٰ کے وعدے کی تجدید بن گئی۔

حضرت ناتن نبی اور بت سبعہ کی حکمت نے فتنہ کی جڑیں کاٹ دیں اور سچائی کی زمین پر سلیمانؑ کی تاجپوشی کے لئے راستہ ہموار کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ربِ جلیل کی مرضی کو عقل و اطاعت کی زبان مل گئی، اور باطل کی آواز، دلائل کی روشنی میں خاموش ہو گئی۔


حضرت سلیمانؑ کی تقرری، حکمت و ہدایت

جب فتنے کی دھند چھٹتی ہے، اور حق کی صدا دربارِ دنیا میں سنائی دیتی ہے، تو وہی نام بلند کیا جاتا ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنی حکمت کے لئے چُنا ہو۔ حضرت داؤدؑ، جو اپنی حیاتِ آخری میں بھی اطاعت کے چراغ کو بجھنے نہ دیتے تھے، رب تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت سلیمانؑ کو تختِ اسرائیل کا وارث مقرر کرتے ہیں۔

یہ تقرری صرف ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا بلکہ ایک روحانی امانت کی سپردگی تھی۔ حضرت سلیمانؑ کو رب تعالیٰ نے نہ صرف دنیاوی حکمت، عدل اور تمکنت عطا فرمائی، بلکہ وہ نورِ بصیرت بھی عطا کیا جو سلطنتوں کو فانی اور ہدایت کو باقی سمجھتا ہے۔

جب صدوق کاہن نے تیل انڈیل کر حضرت سلیمانؑ کو مسح کیا، اور ناتن نبی نے اعلانِ تاجپوشی فرمایا، تو وہ تاج صرف سونے کا نہ تھا، بلکہ ذمہ داری، خوفِ الٰہی، اور بنی اسرائیل کی راہبری کا نشان تھا۔ حضرت سلیمانؑ کی بادشاہت، ان کی عمر کا تقاضا نہ تھی بلکہ رب تعالیٰ کی حکمت کا فیصلہ تھی۔

یہ تقرری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قیادت اُن کے لئے ہے جو علم سے آراستہ، حلم سے مزین، اور توکل سے سرشار ہوں۔ حضرت سلیمانؑ نے قیادت کو فخر نہیں، بلکہ فرض سمجھا؛ تاج کو زیور نہیں، بلکہ امانت جانا؛ اور حکومت کو ذاتی اقتدار نہیں، بلکہ رب کی دی ہوئی ایک آزمائش تسلیم کیا۔


حضرت داؤدؑ کی وصیت، رب کا خوف، عدل کی راہ اور ہدایت

جب وقتِ رخصت قریب آتا ہے، اور نبی کا نفس رب تعالیٰ کی طرف پلٹنے کو تیار ہوتا ہے، تو اُس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ محض نصیحت نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک امانت ہوتے ہیں، جو نسلوں کی رہنمائی کے لئے لئے چراغِ راہ بن جاتے ہیں۔ حضرت داؤدؑ نے بھی جب اپنی روح کو ربِ کائنات کی طرف سپرد کرنے کے لمحات کو محسوس کیا، تو انہوں نے حضرت سلیمانؑ کو صرف بادشاہی کا وارث نہ بنایا بلکہ اسے تقویٰ، حکمت، اور ذمہ داری کی چابیاں بھی عطا کیں۔

حضرت داؤدؑ نے اپنے بیٹے حضرت سلیمانؑ سے فرمایا:
“اے میرے فرزند! مردانگی اختیار کر، اور اپنے ربِ کریم کے احکام پر ثابت قدم رہ۔ اُس کی مقرر کردہ راہوں میں صدق و
یقین سے گامزن ہو، اُس کے فرامین، احکامات، اور گواہیوں کی دل و جان سے پاسداری کر، تاکہ تو فلاح پائے، اور تیری خلافت رب کے فضل سے قائم و دائم رہے۔”

یہ وصیت دراصل ہر اُس شخص کے لئے ہے جس کے ہاتھ میں اختیار آئے کیونکہ قیادت کی اصل شرط نہ نسب ہے نہ مہارت، بلکہ خوفِ خدا، عدل کی پابندی، اور ہدایت کی طلب ہے۔ حضرت داؤدؑ نے حضرت سلیمانؑ کو یہ نہیں کہا کہ تخت کو سنبھال، بلکہ فرمایا کہ خود کو رب تعالیٰ کی راہ پر قائم رکھ، کیونکہ سلطنت وہی سلامت رہتی ہے جہاں رعایا عدل دیکھے اور راہنما تقویٰ پر قائم ہو۔
حضرت داؤدؑ کی وصیت ایک پیغام ہے کہ حکمرانی جب رب تعالیٰ کی بندگی میں ہو تو وہ زمین پر ہدایت کا سایہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر اقتدار نفس کے تابع ہو جائے تو وہ ظلم، غرور اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔

حضرت داؤدؑ کی یہ وصیت قیامت تک کے حکمرانوں، قاضیوں، معلموں اور والدین کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ قیادت ہمیشہ عہد ہے اور یہ عہد صرف وہ نبھا سکتا ہے جو رب ذوالجلال سے ڈرے، اور خلقِ خدا کے لئے آسانی چاہے۔


حضرت داؤدؑ کا وصال

جب نبوت کا سورج اپنی زمینی روشنی مکمل کر چکا، اور دنیاوی بادشاہت کا دور اپنے اختتامی مرحلے کو پہنچا، تو حضرت داؤدؑ، وہ برگزیدہ نبی اور رب تعالیٰ کے محبوب بندے، خاموشی سے اپنے ربّ کے حضور واپس لوٹ گئے۔

کتابِ مقدس میں مرقوم ہے:
“پھر حضرت داؤدؑ نے اپنے آباء و اجداد کے پہلو میں وصال فرمایا، اور اُنہیں شہرِ داؤدؑ میں دفن کیا گیا۔ آپؑ نے بنی اسرائیل پر چالیس برس حکمرانی فرمائی سات برس حبرون میں اور تینتیس برس بیت المقدس (یروشلیم) میں۔ پھر حضرت سلیمانؑ نے اپنے والد حضرت داؤدؑ کی جانشینی فرمائی، اور اُن کی بادشاہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مستحکم و باوقار ہو گئی۔”

حضرت داؤدؑ کا وصال صرف جسم کی مٹی میں واپسی نہ تھا، بلکہ روح کی ابدی روشنی میں داخلہ تھا۔ حضرت داؤدؑ، جنہوں نے ربِ کائنات کی حمد میں زبور کے نغمے چھیڑے، جن کی توبہ گواہی بنی، اور جن کے عدل نے امتوں کی راہنمائی کی وہ اب اُس رب تعالیٰ کے وصال سے سرفراز ہو چکے تھے جس کی رضا ان کی زندگی کا مقصود تھی۔

یروشلیم کی فضا، جس نے داؤدؑ کے کلام کی تسبیحیں سنی تھیں، اب اُن کی خاموشی کی گواہ بنی۔ داؤدؑ کے وصال کے ساتھ ہی ایک نورانی دور ختم ہوا، مگر ان کی وصیت، ان کی دعا، اور ان کی راہنمائی کا فیض حضرت سلیمانؑ کے ذریعہ ایک نئے باب میں منتقل ہو گیا۔

حضرت داؤدؑ کا وصال اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ انبیاء کا جانا، دنیا کی رسومات نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی ملاقات کا دن ہوتا ہے اور وہ وصال، جو ربِ کائنات کی رضا میں ہو، رہتی دنیا تک زندگی کا نشان چھوڑ جاتا ہے۔


شیخ سعدیؒ

بزرگی بہ عقل است نه به سال و مال
که گاهِ فتنہ، پدید آید حالِ رجال

ترجمہ:
بزرگی عقل و حکمت سے ہے، نہ کہ عمر و مال سے؛
کیونکہ جب فتنہ اُٹھے، تب ہی اصل مردوں کے حال ظاہر ہوتے ہیں۔

تشریح
یہ اشعار سبق دوازدہم کی روح کو مکمل طور پر سموئے ہوئے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ کی عمر کم تھی، مگر رب کی حکمت اُن کے اندر ودیعت تھی۔ ادونیاہ کی ظاہری طاقت اور حمایتی حلقہ فتنہ تھا، جبکہ حضرت داؤدؑ کی وصیت، ناتن نبی کی حکمت، اور بت سبعہ کی تدبیر، عقل، بصیرت اور صبر کی وہ جھلک تھی جس نے سچائی کو سربلند کیا۔ سعدیؒ یہاں یاد دلاتے ہیں کہ اصل عزت وقتِ آزمائش میں عقل و عدل سے ظاہر ہوتی ہے، نہ کہ دعووں اور دھن سے۔


نتائج

  1. قیادت کی اصل بنیاد ایمان، حکمت اور الٰہی حکم ہے، نہ کہ نسب یا قوتِ ظاہرہ۔
  2. فتنہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب خلا کو حق کے بجائے نفس بھرنے کی کوشش کرے۔
  3. ناتن نبی اور بت سبعہ کی حکمت ہمیں سکھاتی ہے کہ فتنے کو طاقت سے نہیں، بصیرت، تدبر اور اخلاص سے روکا جاتا ہے۔
  4. حضرت سلیمانؑ کی تقرری اس بات کی علامت ہے کہ قیادت کی اہلیت وہی رکھتا ہے جو عدل، علم، حلم اور تقویٰ کا حامل ہو۔
  5. حضرت داؤدؑ کی وصیت ایک روحانی عہد ہے، جو ہر اُس فرد پر واجب ہے جو کسی بھی سطح پر ذمہ داری کا حامل ہو۔

اختتامیہ

یہ سبق محض ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ وہ روحانی آئینہ ہے جس میں ہر قاری اپنی ذات، اپنی قیادت، اپنی خاموشی اور اپنی ترجیحات کو پرکھ سکتا ہے۔ یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ نبی اگرچہ ضعیف ہو جائے، مگر اس کی حکمت زندہ رہتی ہے۔ قیادت اگر رب تعالیٰ کی رضا سے منتقل ہو، تو وہ تاج نہیں امانت ہوتی ہے، اور وصیت اگر صدق و عدل سے بھری ہو، تو وہ محض الفاظ نہیں بلکہ نسلوں کے لیے چراغ بن جاتی ہے۔ جب حضرت داؤدؑ کا وصال ہوا، تو رب تعالیٰ نے خاموشی سے اعلان فرمایا کہ جو میری رضا سے جیا، وہ میرے حضور بھی وقار سے آئے گا۔