حضرت داؤد اور جالوت کی سرنگونی
جب قومیں ظاہری اسباب، دنیاوی طاقت، اور مادی وسائل پر بھروسہ کرنے لگیں، جب دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی ہو جائیں، اور اہلِ ایمان اپنی تعداد و تیاری پر ناز کرنے لگیں، تب ربِّ کریم اپنی نصرت ایسے دل پر نازل فرماتا ہے جو بظاہر کمزور ہو مگر توکل و اخلاص سے لبریز ہو۔ یہی وہ گھڑی تھی جب بنی اسرائیل کا لشکر اگرچہ ظاہری طور پر میدان میں تھا، مگر اُن کے دلوں میں خوف اور بے یقینی چھا چکی تھی۔ ایسے وقت میں ربِّ کریم نے ایک چرواہے کو چُن لیا ایسا بندہ جو دنیاوی حیثیت میں ناتواں تھا، مگر ربِّ ذوالجلال کی قربت اور ایمان کی روشنی سے مالا مال تھا۔ اسی نے ثابت کیا کہ یقین، توکل اور روحانی اخلاص ہر مادی طاقت سے بلند تر ہیں۔
جالوت کی للکار اور بنی اسرائیل کا خوف
وادیِ ایلہ میں اہلِ فلسطین کا لشکر غرور اور تکبّر کے ساتھ صف آرا تھا، زمین پر اُن کے قدم گونجتے تھے، نیزے بلند تھے، آوازیں تیز تھیں، مگر اُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہ تھا، اور اُن کی صفوں میں ایک سرکش اور جری جنگجو نمایاں تھا جس کا نام جالوت تھا، جس کی جسامت پہاڑوں جیسی، زرہ فولاد کی، اور زبان زہر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ چالیس دن تک مسلسل وادی میں آتا، بنی اسرائیل کو للکارتا، ان کے ایمان کا مذاق اُڑاتا، اور ربِّ قدوس کی توہین کرتا، اور صبح و شام وہ لشکرِ ربّ کو کمزور کہہ کر ان دلوں پر حملہ کرتا جو اندر سے ربّ کے خوف سے خالی ہو چکے تھے۔ بنی اسرائیل کی صفوں میں خاموشی طاری تھی، سروں پر خود تھے، ہاتھوں میں ڈھالیں، مگر زبانیں بند تھیں اور دل کانپ رہے تھے، یہاں تک کہ حضرت ساؤلؑ جیسے بادشاہ بھی لب کشائی نہ کر سکے، نہ کوئی سپاہی آگے بڑھا، نہ کوئی امیر میدان میں اترا۔ اور وہ لمحہ آن پہنچا جب ربِّ عز و جل نے وہ کمزوری ظاہر فرمائی جو ایمان سے خالی صفوں میں چھپی ہوئی تھی، وہ پردہ ہٹا دیا جو ظاہری موجودگی سے قائم تھا، اور باطن کی بے نوری کو آشکار کر دیا، تب ربّ نے فیصلہ فرمایا کہ اب میدان اُس کے اُس بندے کے سپرد کیا جائے جو تلوار نہیں رکھتا، نہ زرہ پہنتا ہے، نہ جنگ کا دعویدار ہے، مگر سچائی کا حامل ہے، باطن میں یقین رکھتا ہے، دل میں توکل بسائے ہوئے ہے، اور خشیتِ الٰہی کا زندہ پیکر ہے۔
نوجوان داؤدؑ کا یقین
ایسے ہی وقت میں حضرت یسّیؑ کا ایک کمسن بیٹا، حضرت داؤدؑ، جو فقط اپنے بھائیوں کے لئے کھانا اور خیریت کا پیغام لے کر آیا تھا، جب اُس نے میدانِ جنگ کی فضا دیکھی، اور جالوت کی زبان سے نکلتے ہوئے کفر، تکبر اور توہینِ ربّ کے الفاظ سنے، تو خاموش نہ رہ سکا، بلکہ وہ غصے، غیرتِ ایمانی اور روحانی اخلاص کے ساتھ پکار اٹھا: “یہ کون ہے جو لشکرِ ربِّ زندہ کی توہین کر رہا ہے؟” داؤدؑ کے جملے صرف الفاظ نہ تھے، وہ اُس دل کی صدا تھی جو ربّ کے قرب میں تپ چکا ہو، وہ زبان بول رہی تھی جو یقین سے لبریز تھی، اور وہ نگاہ تھی جس نے سچائی کے نور کو دیکھ رکھا تھا۔ جب یہ بات حضرت ساؤلؑ تک پہنچی، تو حضرت داؤدؑ کو دربار میں لایا گیا، مگر نہ اُس نے درباری آداب اختیار کیے، نہ کسی خوف یا شرمندگی کا لبادہ اوڑھا، بلکہ اُس نے یقین سے لبریز لہجے میں فرمایا: “میں اس ناپاک جالوت کے مقابلے کے لیے جاؤں گا۔” اور جب درباریوں نے، اور خود حضرت ساؤلؑ نے اُسے کمسن، ناتجربہ کار اور بے سلاح نوجوان قرار دیا، تو داؤدؑ نے نہ جھجک دکھائی، نہ خاموشی اختیار کی، بلکہ پورے یقین کے ساتھ عرض کیا: “میں اپنے باپ کی بھیڑ بکریاں چَراتا رہا ہوں، اور جب کبھی ریچھ یا شیر آیا اور کسی بھیڑ کو پکڑ کر لے گیا، تو میں اُس کے پیچھے دوڑا، اُسے مارا، اور اُس کے منہ سے اُسے چھین لایا، اور اگر وہ مجھ پر جھپٹا، تو میں نے اُسے پکڑ کر جان سے مار دیا؛ پس یہ ناپاک جالوت بھی اُسی کی مانند ہے، کیونکہ اس نے ربِّ زندہ کے لشکر کو للکارا ہے، اور میں ربّ جلیل کے حکم سے اس پر غالب آ جاؤں گا۔”
سادگی اور بھروسا
حضرت ساؤلؑ نے جب حضرت داؤدؑ کے ارادے کو سنا، تو اپنی طرف سے اُسے زرہ، خود، اور تلوار پہنائی تاکہ میدان میں دشمن کا سامنا کرتے وقت اُس کے پاس وہ سب کچھ ہو جو دنیاوی لحاظ سے ضروری سمجھا جاتا ہے، مگر حضرت داؤدؑ نے عاجزانہ انداز میں عرض کیا: “میں ان کا عادی نہیں ہوں،” اور وہ بظاہر مددگار ہتھیار اتار دیے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اصل طاقت اُن چیزوں میں نہیں جو ہاتھ میں ہوں، بلکہ اُن چیزوں میں ہے جو دل میں ہوں۔ اس نے دنیاوی وسائل سے دامن ہٹا کر اپنے ربّ کی طرف رجوع کیا، اور صرف اپنی سادہ لاٹھی، ایک چھوٹی سی چرواہے کی تھیلی، اور اُن میں سے پانچ ہموار پتھر لیے، وہی پتھر جو داؤدؑ نے ندی سے چُنے تھے، جن پر ربّ کے توکل کا نور چمک رہا تھا، اور وہ یقین جسے کوئی زرہ نہیں دے سکتی۔ وہ میدان کی طرف بڑھا تو اہلِ دنیا کی نظر میں وہ صرف ایک کمزور لڑکا تھا، جس کے پاس نہ تلوار تھی، نہ ڈھال، اور نہ جنگی تربیت، مگر اہلِ دل جانتے تھے کہ وہ اُس ربِّ ذوالمنن کے سہارے چل رہا ہے، جو کمزوروں کو غالب کرتا ہے، اور جنہیں دنیا حقیر سمجھے، اُنہیں فتح کے جھنڈے عطا کرتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی قوت اُس کے بازوؤں میں نہ تھی، بلکہ اُس دل میں تھی جو ربّ پر کامل یقین سے بھرا ہوا تھا، اور وہ دل جب توکل کے ساتھ اٹھتا ہے، تو پوری زمین اُس کی راہ میں نرم ہو جاتی ہے۔
ایمان کا پتھر
جب دونوں لشکروں کے درمیان وہ گھڑی آئی، اور حضرت داؤدؑ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہوئے میدان میں اترا، تو جالوت نے داؤدؑ کو حقیر جانا، اور تکبّر سے کہا: “کیا میں کتا ہوں، جو تُو میرے پاس لاٹھی لے کر آیا ہے؟” اور اُس نے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام پر داؤدؑ پر لعنت بھیجی، اور کہا: “آ، میں تیرا گوشت ہوا کے پرندوں اور درندوں کے آگے ڈال دوں گا۔”
مگر حضرت داؤدؑ نے کہا: “تو تلوار، نیزے اور بھالے کے ساتھ آیا ہے، اور میں تیرے سامنے اُس ربِّ قہار کے نام پر کھڑا ہوں، جس کے لشکر کو تُو نے توہین کی ہے، اور جس کے سامنے تُو سرکش ہوا ہے۔ آج کا دن وہ ہے جس میں ربّ عظیم تجھے میرے ہاتھ میں دے گا، تاکہ تمام قومیں جان لیں کہ فتح تلوار سے نہیں، نہ نیزے سے، بلکہ ربّ العزت کی طرف سے ہے، اور وہ جسے چاہے، اپنے حکم سے غالب فرما دیتا ہے۔”
پھر داؤدؑ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اپنی تھیلی سے ایک پتھر نکالا، اُسے غلیل میں رکھا، اور اللہ کے نام سے چلا دیا، تو وہ پتھر اُڑا، اور عین جالوت کی پیشانی پر لگا وہی مقام جو اس کے تکبّر کا مرکز تھا، وہی جگہ جو زرہ سے خالی تھی، اور اسی لمحے جالوت زمین پر گرا، اس کا غرور خاک میں ملا، اور وہ جو چالیس دن تک ربّ کے لشکر کو طعنہ دیتا رہا، ایک لمحے میں ہلاک ہو گیا۔
اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک کمزور، بے ہتھیار، سچے اور عبادت گزار نوجوان کے ہاتھوں ایک سرکش قوم کو مغلوب فرمایا، تاکہ دنیا جان لے کہ طاقت اُن ہاتھوں میں نہیں ہوتی جن میں ہتھیار ہوں، بلکہ اُن دلوں میں ہوتی ہے جو ربّ سے جُڑے ہوں، اور یقین والوں پر ربّ کی فتح ہر حال میں نازل ہوتی ہے۔
ربِّ قہار کی مدد سے کامیابی
جالوت کے گرتے ہی اہلِ فلسطین کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی، اُن کے دل جن میں لمحہ بھر پہلے تک غرور کی گرج تھی، اب خوف سے لرزنے لگے، اُن کی آنکھیں جن میں تکبّر کی روشنی تھی، اب شکست کی دھند میں گم ہو گئیں، اور اُن کے قدم جو چند لمحے قبل زمین پر دھمک رہے تھے، اب پیچھے ہٹنے لگے، اور وہ جنہوں نے چالیس دن تک ربّ کے بندوں کو طعنوں کا نشانہ بنایا، وہی اب زمین چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بنی اسرائیل، جو خوف زدہ کھڑے تھے، اب اپنے ربّ کی مدد کو دیکھ کر بیدار ہو گئے، اور میدانِ کارزار اُن کے قدموں تلے آ گیا۔ مگر یہ فتح نہ تلوار کی مرہونِ منت تھی، نہ گھوڑوں کی دوڑ سے حاصل ہوئی، نہ تیر و نیزے کے کمال سے، نہ کثرتِ لشکر کی گنتی سے، بلکہ یہ فتح ربِّ قہار کی تھی۔ اُس ربّ کی جس نے ایک چرواہے کے دل میں اپنی یاد اتاری، اُس کی زبان پر اپنی عظمت رکھ دی، اور اُس کے ہاتھ سے اپنے دشمن کو خاک میں ملا دیا۔
یہ وہی لمحہ تھا جب زمین نے دیکھا کہ جسے دنیا کمزور سمجھے، ربّ اُسے غالب کر دیتا ہے، اور جسے مخلوق ناتواں کہے، ربّ اُسے اپنا علمبردار بنا لیتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی یہ فتح تاریخ کے سینے میں وہ نشان بن گئی جو رہتی دنیا تک ایمان والوں کو یاد دلاتی رہے گی کہ جسے ربِّ علیم چُن لے، اُسے نہ تخت کی حاجت رہتی ہے، نہ دربار کی ضرورت، نہ فوج کی، نہ مشیر کی، کیونکہ اصل طاقت نہ ظاہری شان میں ہے، نہ ہتھیاروں میں، بلکہ یقین، توکل، اور ربِّ ذوالجلال کی وابستگی میں ہے، اور جس کے دل میں یہ تین خزانے ہوں، اُسے زمین کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
صائب تبریزی
همت از نام تو گیرد، نه ز شمشیر و سپاه سربلندی ز توکل بود، نه از تاج و کلاهترجمہ:
ترجمہ:
سچی ہمت رب ذوالجلال کے نام سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ تلوار اور لشکر سے، عظمت و عزت توکل سے آتی ہے، نہ کہ تاج و تخت سے۔
تشریح:
یہ شعر حضرت داؤدؑ کے روحانی مرتبے کا آئینہ ہے کہ طاقت نہ تلوار میں ہے، نہ زرہ میں، بلکہ اُس توکل میں ہے جو ربّ کی رضا سے جُڑا ہو؛ جب دل یقین سے بھرا ہو، نیت خالص ہو، اور زبان پر ربّ کا نام ہو، تو دنیا کی کوئی قوت غالب نہیں آ سکتی۔
نتائج:
- سچا توکل انسان کو ہر رکاوٹ پر غالب کر دیتا ہے، چاہے وہ بظاہر کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، کیونکہ دل جب ربّ پر بھروسہ کر لے، تو ہاتھ میں لاٹھی بھی لشکر سے زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔
- ایمان کی روشنی، جو دل سے چمکتی ہے، ظاہری طاقت سے زیادہ مؤثر اور دیرپا ہوتی ہے، کیونکہ وہ روشنی جسے ربّ جلائے، اُسے کوئی دنیاوی اندھیرا بجھا نہیں سکتا۔
- اصل قیادت وہی ہے جو روحانی سچائی، اخلاصِ نیت، اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر قائم ہو، کیونکہ وہی قیادت دلوں کو سکون دیتی ہے، اور قوموں کو بیدار کرتی ہے۔
- جو دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے معمور ہو، وہ بڑے سے بڑے فتنے کو پاش پاش کر سکتا ہے، کیونکہ وہ دل جس میں ربّ بسا ہو، اُس کے سامنے جالوت جیسے غرور مٹی بن جاتے ہیں۔
- حضرت داؤدؑ کی فتح ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل تیاری دل کی صفائی، توکل کی سچائی، اور اخلاص کی روشنی ہے نہ کہ صرف ہتھیار، زرہ یا سازوسامان کا ہونا۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ ربِّ کریم پر توکل صرف ایک فکری خیال نہیں، نہ کوئی زبانی دعویٰ، بلکہ ایک عملی حقیقت ہے جو دل کو ربّ سے جوڑتی ہے، اور بندے کو آسمانی مدد کے دروازے پر لا کھڑا کرتی ہے۔ حضرت داؤدؑ کا ایمان، اُس کا اخلاص، اُس کی سادہ بندگی، اور اُس کی باطنی طاقت اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے راضی ہو جائے، تو وہ بندہ نہ کسی نیزے سے ڈرتا ہے، نہ کسی لشکر سے، نہ کسی دربار سے، نہ کسی طعن سے، کیونکہ اُس کا سہارا نہ تلوار ہوتا ہے، نہ زرہ، بلکہ صرف وہ یقین جو دل کے اندر چمکتا ہے۔ وہ چرواہا تھا، مگر اُس کا دل تخت سے بلند تھا، اور اُس کا توکل دنیا کے تمام ہتھیاروں سے قوی تر تھا، اور یہی ہے بندگی کی سچی سربلندی ہے کہ انسان ظاہراً تنہا ہو، مگر ربّ کے قریب ہو، اور وہ دل جو ربّ سے جُڑ جائے، وہی اصل میں فاتح ہوتا ہے۔