حضرت ساؤلؓ کی نافرمانی اور قیمت
جب ربّ العرش کسی بندے کو قیادت بخشتا ہے تو اُس کے سروں پر ذمہ داریوں کا ایسا تاج رکھتا ہے جس کی بنیاد اطاعتِ کاملہ پر ہوتی ہے۔ اور جب وہی اطاعت، خواہشِ نفس، مصلحت یا دنیاوی تدبیر کے زیرِ اثر آ جائے، تو تاج سَر پر نہیں رہتا، بلکہ تقدیر کی زمین پر گر جاتا ہے۔ حضرت ساؤلؓ، جنہیں حضرت سموئیلؑ کے ہاتھوں ربّ العالمین نے عزت بخشی تھی، اب ربّ العزت کے حکم سے روگردانی کر کے اس مقام پر پہنچے جہاں بادشاہی محض ایک پردہ رہ گئی اور اس کے پیچھے ربّی عتاب کھڑا ہو گیا۔
حضرت ساؤل کی خودرائی اور ربّ کی ناراضی
ربّ ذوالجلال نے حکم فرمایا تھا کہ بنی عمالیق کو مکمل نیست و نابود کیا جائے۔ نہ ان کا بادشاہ بخشا جائے، نہ مالِ غنیمت ہاتھ لگایا جائے۔ مگر حضرت ساؤلؓ نے ربّ تعالیٰ کی حکم عدولی کرتے ہوئے دشمن کے بادشاہ کو قید کر لیا اور مالِ غنیمت کو بچا کر رکھ لیا، تاکہ بعد میں “قربانی” کے نام پر اسے پیش کیا جائے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ربّ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے لرز اُٹھے۔ اطاعت کے بجائے رائے کی پیروی، ربّ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذریعہ بنی اور نبوی دل پر ایک روحانی زلزلہ برپا ہوا۔
حضرت سموئیلؑ کا انکار اور دعائے حزین
حضرت سموئیلؑ کو جب وحی کے ذریعے معلوم ہوا کہ حضرت ساؤلؓ نے ربِّ کریم کا حکم توڑ دیا ہے، تو اُن کی روح تڑپ اٹھی۔ وہ ساری شب بارگاہِ ربّ العزت میں دعا کرتے رہے، مگر دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا۔ اُنہوں نے حضرت ساؤلؓ سے ملاقات سے انکار کر دیا۔ یہ انکار محض ناراضگی نہیں تھا، بلکہ ایک نبی کی طرف سے ربّی عدل کی خاموش تائید تھی۔ حضرت سموئیلؑ کی خاموشی اُس لمحے ایک اعلان تھی: ربِّ کریم کی رضا اس بادشاہی سے اٹھ چکی ہے۔
رسم یا اطاعت؟
حضرت ساؤلؓ نے جب قربانی کے بہانے سے نافرمانی کو ڈھانپنا چاہا، تو حضرت سموئیلؑ نے فرمایا:
“کیا ربّ پاک کو ذبیحوں کی بو پسند ہے یا اُس کے حکم کی پیروی؟ سن لے! اطاعت قربانی سے بہتر ہے، اور رب تعالیٰ کا حکم ماننا قربانی سے بہتر ہے۔
یہ وہ روحانی میزان تھا جس نے امتِ توحید کو بتا دیا کہ قربانی اگر اطاعت سے خالی ہو تو وہ نذرانہ نہیں، نفاق ہے۔
تخت سے عزل اور ربّ کی وحی
حضرت سموئیلؑ نے اعلان فرمایا: “ساؤلؓ ربّ العزت نے تجھے بادشاہی سے رد کر دیا ہے، اور اپنے دل کے موافق ایک اور بندے کو چُن لیا ہے۔”
یہ اعلان صرف حضرت ساؤلؓ کے لئے عزل نہ تھا، بلکہ بنی اسرائیل کے لئے ایک آزمائش کا نقارہ تھا۔ حضرت ساؤلؓ ابھی تخت پر براجمان تھے، مگر ربّ العزت کی حضوری اُن سے جدا ہو چکی تھی۔ روحانی قیادت اُن سے چھن گئی تھی اور وہ صرف ظاہری فرمانروا رہ گئے تھے۔
نبی کا فراق اور خاموش زوال
حضرت سموئیلؑ نے حضرت ساؤلؓ سے فراق اختیار کر لیا۔ نہ اُن سے ملاقات کی، نہ اُن کے دربار میں حاضر ہوئے۔ اور یہ فراق، ربّ العالمین کے نور کی دوری کا آغاز تھا۔ حضرت ساؤلؓ کی سلطنت اب باطنی طور پر خالی تھی ایک سنّاٹا، جس میں نہ وحی تھی، نہ دعا، نہ ہدایت۔ وہ اب تنہا تھے اور اس تنہائی میں قیادت نہیں، روحانی غروب پوشیدہ تھا۔
امام فخرالدین عراقیؒ
اطاعتِ دوست کن و ترکِ منیٰ گو اے دل
کہ در رکوعِ رضا، قربِ سلیمانی ہست
ترجمہ:
اے دل! محبوب کی اطاعت اختیار کر، اور اپنی خواہش چھوڑ دے کیونکہ رضا کے سجدے میں ہی سلیمانی بادشاہی ہے۔
تشریح:
یہ شعر حضرت ساؤلؓ کی داستان پر عرفانی تبصرہ ہے۔ بادشاہی تخت سے نہیں، ربّ العزت کی رضا سے ملتی ہے۔ جب بندہ اپنی رائے کو ربّ ذوالجلال کے حکم پر ترجیح دے، تو سلطنت بھی اس کے ہاتھ سے چھن جاتی ہے، اور سکونِ دل بھی۔
نتائج:
- اطاعت ہی اصل قربانی ہے جو دل کو خالص کرتی ہے۔
- نافرمانی اگر عبادت کی صورت میں بھی ہو تو وہ نفاق ہے۔
- ایک نبی کی خاموشی، ربّ العزت کی ناراضی کا آئینہ ہوتی ہے۔
- جب ربّ تعالیٰ کا حکم پسِ پشت چلا جائے تو تخت بھی بےنور ہو جاتا ہے۔
- روحانی قیادت، صرف دعا، فقر اور قرب کی بنیاد پر قائم رہتی ہے، طاقت سے نہیں۔
اختتامیہ:
یہ باب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ربّ تعالیٰ کی رضا اطاعت سے وابستہ ہے، نہ کہ رسموں اور منصبوں سے۔ حضرت ساؤلؓ کی نافرمانی، ایک ایسی علامت ہے جو ہر دور کے حکمرانوں اور قیادت کے طالبوں کے لئے آئینہ ہے۔
اگر کوئی قیادت ربِّ کریم کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کو فوقیت دے تو ربّ تعالیٰ اُسے وقت دے کر نہیں بخشتا، بلکہ اُسے اُس کی ضد میں چھوڑ دیتا ہے۔ اور وہ ضد، بالآخر، زوال بن جاتی ہے۔