حضرت ساؤل کے مقابلہ میں عفو کا علمبردار
جب زمین پر ظلم کی آواز بلند ہو، اور حق دبایا جانے لگے، جب سچ بولنے والوں کو چھپنا پڑے، اور بندگی کے چراغ ہوا سے لڑنے لگیں، تب ربِّ کریم اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو چُن لیتا ہے۔ وہ جس کے دل میں کینہ نہ ہو، جس کی آنکھوں میں خشیت ہو، اور جس کے ہاتھ میں بدلے کی تلوار نہیں، بلکہ صبر کا علم ہو۔ وہ بندہ جو خاموش رہتا ہے مگر اُس کی خاموشی پہاڑوں سے زیادہ وزنی ہوتی ہے، جو زخمی ہوتا ہے مگر اُس کا دل معاف کرنے کے نور سے بھرا ہوتا ہے، جو تنہائی کے اندھیروں میں جیتا ہے، مگر اُس کا سینہ ربّ کے نور سے منور ہوتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کی زندگی ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ اصل طاقت وہ نہیں جو نیزہ پھینکے، بلکہ وہ ہے جو ظلم سہہ کر بھی زبان کو قابو میں رکھے، جو بددعائیں نہ دے، بلکہ دل سے دعا نکالے، اور جو انتقام کے دروازے بند کر کے اللہ کی رضا کا در کھول دے۔ حضرت داؤدؑ نے نہ شکایت کی، نہ شکوہ، نہ خود کو مظلوم کہلایا، نہ اپنی راہ میں دشمنوں کو بددعا دی، بلکہ اُس نے اپنا راستہ صبر سے بنایا، عفو سے سجایا، اور توکل سے طے کیا۔
حسد سے بھری راہیں
جب حضرت داؤدؑ ربِّ ذوالجلال کی رضا سے فتوحات حاصل کرنے لگے، جب اُن کے ہاتھوں ربّ کے دشمن پسپا ہونے لگے، جب اُن کے نغمے دربار میں سکون کا پیام بننے لگے، اور جب اُن کا نام قوم کے دلوں میں عظمت کا نشان بننے لگا، تو اُسی وقت حضرت ساؤلؑ کے دل میں ایک ایسا زہر جاگا جو عزت کو جلا دیتا ہے، اور وہ زہر حسد تھا وہ حسد جو روشنی سے جلتا ہے، جو خیر پر وار کرتا ہے، اور جو ربّ کے فیصلوں سے لڑنے کی جسارت کرتا ہے۔
حضرت ساؤل نے وہی داؤدؑ جو کبھی اُس کے لیے بانسری بجاتا تھا، اب اُسے اپنا دشمن جانا، اُس پر شک کیا، اور اُس کے خلاف دل میں بدگمانی پال لی، اور پھر حسد نے دشمنی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اُس نے کئی بار حضرت داؤدؑ کو قتل کرنے کی کوشش کی، نیزہ چلایا، جھوٹے الزامات تراشے، اور دربار کے دروازے اُس پر بند کیے۔ صرف محل ہی نہیں، اُس نے پورے ملک میں اُس کے خلاف اعلان کروایا، اور لشکر پیچھے لگا دیے، تاکہ وہ نوجوان جسے ربّ نے چُنا تھا، وہی ملک سے مٹ جائے۔
مگر حضرت داؤدؑ نے تلوار نہ اٹھائی، نہ زبان سے بددعا نکالی، بلکہ خاموشی اختیار کی، اور ہر وار کے جواب میں صبر کو ڈھال بنایا۔ اُس نے ربّ سے فریاد کی، اور اپنی جان ربّ کے سپرد کر دی، اور دنیا کو دکھایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرے، وہ دشمنی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی مانند ہوتا ہے۔ حضرت داؤدؑ نے جنگ کی جگہ دعا کی، بدلے کی جگہ درگزر کیا، اور ظلم کے مقابلے میں سجدہ اختیار کیا اور یہی وہ راہ ہے جو بندے کو ربّ کے قریب، اور دشمن کو اس کے دل سے شرمندہ کر دیتی ہے۔
غم کی راتوں میں رب کا نور
حضرت داؤدؑ اُن دنوں جب زمین اُن کے لیے تنگ کر دی گئی، اور دربار کے دروازے بند ہو گئے، تو پہاڑوں کی بلندیوں میں چھپتے، بیابانوں کے سنّاٹوں میں بسیرا کرتے، اور غاروں کی خامشی کو اپنا گھر بنا لیتے تھے، مگر نہ اُن کی زبان پر شکوہ آتا، نہ اُن کے دل میں انتقام کا سایہ جاگتا۔ اُن کی راتیں ربِّ کریم کے ذکر میں گزرتی تھیں، اُن کی تنہائی سجدوں سے روشن ہوتی تھی، اور اُن کے دن صبر کے سائے میں، توکل کی روشنی میں، اور دعا کی خوشبو میں ڈھلتے تھے۔
حضرت داؤدؑ نے تکلیف کو اپنے لیے بندگی کا وسیلہ بنایا، اور ظلم کو اپنے ظرف کا امتحان، وہ نہ کسی سے گلہ کرتے، نہ کسی کو برا کہتے، اور نہ اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرتے، بلکہ ہر زخم کو خاموشی سے ربّ کے حضور لے جاتے، ہر اذیت کو دعا میں بدلتے، اور ہر تنہائی کو سجدے کا موقع سمجھتے۔
جب داؤدؑ کے دشمن اُن کی تلاش میں تھے، وہ اپنے ربّ کو یاد کر رہے تھے، جب نیزے داؤدؑ کے پیچھے تھے، وہ تسلیم کے راستے پر گامزن تھے، اور جب دل پر درد اُترتا، تو وہ اُس درد کو عبادت کی زبان دے دیتے تھے۔ حضرت داؤدؑ نے دکھ کو عبادت میں ڈھالا، اور آزمائش کو قرب میں بدلا، اور یہ وہ روش ہے جو اُنہیں دنیا کے تخت سے نہیں، بلکہ ربّ کے قرب سے سرفراز کرتی ہے۔
رحمت کا مظاہرہ
ایک دن ایسا بھی آیا جب حضرت داؤدؑ پہاڑوں میں چھپتے چھپتے ایک غار میں قیام پذیر تھے، اور وہی غار تقدیر کے اُس لمحے کا گواہ بننے والا تھا جہاں ربّ کی طرف سے صبر کی عظمت کو ظاہر کیا جانا تھا۔ حضرت ساؤلؑ جو حضرت داؤدؑ کو قتل کرنے کے ارادے سے لشکر سمیت نکلا تھا، وہی شخص اِسی غار میں بے خبر داخل ہوا، جہاں داؤدؑ پہلے سے موجود تھے، اور اُن کے چند وفادار ساتھی ہمراہ تھے۔ جب ساتھیوں نے حضرت ساؤلؑ کو تنہا، بے خبر، اور اُن کے قریب دیکھا، تو دلوں میں جوش اُٹھا، اور زبانوں پر یہ الفاظ آئے: “یہ وہی موقع ہے جو ربّ کی طرف سے نازل ہوا ہے، آج آپ اپنے دشمن کو ختم کر دیں۔”
مگر حضرت داؤدؑ نے اُن کی بات نہ مانی، بلکہ عاجزی سے اور خشیتِ الٰہی سے بھرپور لہجے میں فرمایا: “میں ربِّ ذوالجلال کے ممسوح پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔” اُن کے دل میں دشمن سے پہلے ربّ کا ادب تھا، اور وہ جانتے تھے کہ جسے ربّ نے چھونا ہو، اُس پر ہاتھ اُٹھانا بندگی کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے تلوار نہ چلائی، نہ بدلہ لیا، بلکہ صرف حضرت ساؤلؑ کی چادر کا ایک کنارہ آہستگی سے کاٹ لیا، اور اُس وقت بھی اُن کے دل میں نرمی تھی، اور آنکھیں ربّ کے خوف سے بھیگی ہوئی تھیں۔
اور جب حضرت ساؤلؑ غار سے باہر نکلے، تو حضرت داؤدؑ اُن کے پیچھے آئے، نہ تلوار کے ساتھ، نہ غصے کے ساتھ، بلکہ صداقت کے ساتھ، اور پکار کر کہا: “اے بادشاہ! دیکھ، یہ ہے تیری چادر کا ٹکڑا، میں تیرے بہت قریب تھا، مگر میں نے تجھے نقصان نہ پہنچایا، کیونکہ میرے ہاتھ ظلم سے پاک ہیں، اور میرا دل تیرے خلاف بغاوت سے خالی ہے۔” یہ وہ لمحہ تھا جہاں زمین نے دیکھا کہ عفو وہ روشنی ہے جو تلوار سے زیادہ اثر رکھتی ہے، اور صبر وہ ہتھیار ہے جو دشمن کو بھی خاموش کر دیتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کا یہ عمل اس بات کی دلیل بنا کہ جو بندہ ربّ کے ادب سے جیتا ہے، وہ دشمنوں کے دل بھی جھکا لیتا ہے، اور جس کے ہاتھ ظلم سے پاک ہوں، اُس کی آواز زمین پر عدل کا نشان بن جاتی ہے۔
دلوں پر حکومت
جب حضرت داؤدؑ نے دشمنی کے لمحے میں عفو کا چراغ جلایا، اور بدلے کی جگہ نرمی کو اختیار کیا، جب اُنہوں نے خاموشی کو صبر کا لباس دیا اور ہاتھ میں تلوار کے بجائے حلم کی تسبیح تھامی، تو اُس روشنی کا اثر دشمن کے دل پر ایسا اترا کہ وہ پگھل گیا۔ حضرت ساؤلؑ، جو تلوار کے ساتھ نکلے تھے، جب حضرت داؤدؑ کی زبان سے رحمت کے الفاظ سنیں، اور جب اپنے ہی چادر کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں پایا، تو اُن کی آنکھیں بھر آئیں، اور وہ بے اختیار رو پڑے۔
اُنہوں نے آواز بلند کر کے کہا: “اے داؤدؑ! تُو مجھ سے بہتر ہے، کیونکہ تُو نے میرے ساتھ بھلائی کی، اور میں نے تیرے ساتھ بدی کی۔” یہ وہ لمحہ تھا جب ظالم کا دل لرز اٹھا، اور عفو کرنے والے کی عظمت اُس کے دل میں اُتر گئی، کیونکہ حضرت داؤدؑ کی قیادت کسی تخت کی طلب سے نہ تھی، اُن کے دل میں نہ سلطنت کی چاہت تھی، نہ کرسی کی حرص، بلکہ اُن کا سینہ اُس نور سے بھرا ہوا تھا جو ربّ کی رضا سے حاصل ہوتا ہے، اور اُن کے ہاتھوں میں وہ نرم روشنی تھی جو قلوب کو فتح کر لیتی ہے۔
حضرت داؤدؑ نے حضرت ساؤلؑ کو معاف کر کے صرف ایک شخص کو بخشا نہیں، بلکہ تاریخ کے سینے پر یہ لکھ دیا کہ اصل حکومت تلوار سے نہیں، کردار سے ہوتی ہے، اور جو دلوں پر حکومت کرے، اُسے زمین کے تختوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور یہی وہ فتح ہے جو معافی سے حاصل ہوتی ہے خاموش، نرم، باوقار، مگر دائمی اور بلند۔
عبدالرحمٰن جامیؒ
تو زہر دِل کَشی، من صبر میکنم
فرقت دِل و تیغِ قہر، من صبر میکنم
ترجمہ:
تو زخم دیتا ہے، میں صبر کرتا ہوں۔
تو جدائی اور ظلم کی تلوار نکالتا ہے، میں خاموشی سے رضا پر راضی ہوتا ہوں۔
تشریح:
حضرت داؤدؑ کی زندگی اس شعر کی مکمل تفسیر ہے، کیونکہ وہ بارہا ستائے گئے، اذیتیں برداشت کیں، طعنوں، ظلموں اور دشمنی کی آندھیوں سے گزرے، مگر اُن کی زبان سے کبھی شکایت نہ نکلی، اور اُن کے لبوں پر کبھی بددعا نہ آئی۔ وہ چھپے، تنہا ہوئے، غاروں میں رہے، مگر دل اُن کا ربّ کی یاد سے آباد رہا، اور نگاہ اُن کی صرف اُسی کی طرف لگی رہی۔
نتائج:
صبر وہ تلوار ہے جو شور کیے بغیر کاٹتی ہے، اور بغیر زخم دیے دشمن کے غرور کو زمین بوس کر دیتی ہے، کیونکہ ربّ کی مدد ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتی ہے جو صبر پر قائم رہتے ہیں۔
معافی وہ نعمت ہے جو تختوں کو نہیں، دلوں کو فتح کرتی ہے؛ جو دیواروں کو نہیں، سینوں کو نرم کرتی ہے؛ اور جس کی خوشبو دشمنوں کے اندر بھی ندامت پیدا کرتی ہے۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ تلوار نہیں اٹھاتا، بلکہ دل کو ربّ کے فیصلے کے سپرد کرتا ہے، اور اسی رضا میں اُس کی فتح بھی ہوتی ہے، اور بلندی بھی۔
دشمن کو معاف کرنا انبیاء کی سُنت ہے، اور اولیاء کا شعار؛ وہی طریقہ جو دلوں کو جگاتا ہے، روحوں کو تسکین دیتا ہے، اور زمین پر آسمانی نور کی علامت بن جاتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کی بردباری اس بات کی گواہی ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے جو دلوں پر حکومت کرے، اور جس کے کردار میں ایسی روشنی ہو جو تلوار سے نہیں، صبر سے جیتی جائے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ صبر اور معافی کا راستہ بظاہر کٹھن اور تنہائی سے بھرا ہوا ہو سکتا ہے، مگر وہی راستہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جاتا ہے، وہی راستہ لوگوں کے دلوں میں محبت اُتارتا ہے، اور وہی آخرکار عزت، سربلندی، اور روحانی فتح کا دروازہ کھولتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی صبر کا ایسا آئینہ ہے جس میں ہر درد بندگی بن گیا، ہر زخم شکر کی خوشبو میں ڈھل گیا، اور ہر محرومی محبت، دعا اور اخلاص کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ چرواہا جو پہاڑوں میں چھپتا رہا، غاروں میں راتیں گزارتا رہا، آخرکار اُسی نے ربّ کے فضل سے وہ عزت پائی جسے زمین کے تخت نہیں، آسمان کی رضا عطا کرتی ہے۔ مگر وہ راستہ جو اُسے وہاں تک لے گیا، وہ نہ تلوار کا تھا، نہ تخت کا، بلکہ صبر، معافی اور عاجزی کا تھا اور یہی ہے اصل سربلندی، یہی ہے بندگی کی وہ روشنی جو دلوں کو روشن کرتی ہے اور ربّ کے قریب لے جاتی ہے۔