حضرت سموئیلؑ کا وصال اور وراثتِ روح
جب نبی خاموش ہو جائے تو زمین پر سکوت چھا جاتا ہے، لیکن اہلِ دل جانتے ہیں کہ نبی کا سکوت موت نہیں ہوتا بلکہ نور کی وہ گھڑی ہوتی ہے جب ظاہری آواز رخصت ہوتی ہے اور باطن کی صدا شروع ہوتی ہے۔ حضرت سموئیلؑ کی زندگی ہدایت، دعا، وحی اور صبر کا استعارہ تھی، اور ان کا وصال ایک باب کا اختتام نہیں، بلکہ روحانیت کی وراثت کا آغاز تھا۔
حضرت سموئیلؑ کے آخری ایام
حضرت سموئیلؑ کی عمر کا آخری حصہ گوشہ نشینی، عبادت، اور خاموش دعا میں گزرا۔ بنی اسرائیل قوم کی قیادت اب حضرت ساؤل ؓکے ہاتھ میں تھی، مگر حضرت سموئیلؑ کی موجودگی کا نور اب بھی باقی تھا۔ انہوں نے نہ سیاست میں دخل دیا، نہ عوامی مناصب پر کلام فرمایا، بلکہ اپنے ربِّ کریم سے جڑ کر وہی کام کیا جو انبیاء کی وراثت ہے: دعا، تربیت، سکوت اور تفویض۔
قوم کا بگاڑ اور حضرت سموئیلؑ کا سکوت
قوم بنی اسرائیل اب جنگوں، بادشاہوں، فتوحات اور دنیاوی جلال میں مگن تھی۔ حضرت سموئیلؑ کی آنکھوں کے سامنے وہ بنی اسرائیل قوم، جسے سموئیلؑ نے معجزات دکھائے، اب وہ بنی اسرائیل قوم دنیا کی پیروی میں اپنے ربّ کو بھولتی جا رہی تھی۔ مگر حضرت سموئیلؑ نے شکایت نہ کی، تنقید نہ کی، بلکہ خاموشی اختیار کی اور یہ خاموشی، دراصل حق کی وہ فریاد تھی جو زبان سے نہیں، دل سے بلند ہوتی ہے۔
صبر، اخلاص، اور دعا کی تعلیم
حضرت سموئیلؑ نے اپنی زندگی میں جو ورثہ چھوڑا وہ خطبے نہیں، بلکہ وہ دعائیں تھیں جو رات کے آخری پہر میں عرش تک جاتی تھیں۔ ان کی خاموش زندگی خود اہلِ حکمت کے لئے ایک سبق تھی کہ اصل قیادت زبان کی گھن گرج سے نہیں، دل کے سکوت سے ہوتی ہے۔ حضرت سموئیلؑ نے بنی اسرائیل قوم کو سکھایا کہ دعا ہی اصل ہتھیار ہے، صبر اصل رہنمائی ہے، اور اخلاص وہ دروازہ ہے جس پر نور دستک دیتا ہے۔
حضرت سموئیلؑ کا وصال
حضرت سموئیلؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام رامہ میں گزارے، جہاں وہ اپنے مکان میں خلوت نشین ہو چکے تھے۔ نہ کسی دربار کا حصہ، نہ کسی سلطنت کی مشاورت میں شامل صرف ربّ العزت کے حضور، رات کی خلوتوں میں، بنی اسرائیل قوم کے لئے آنسوؤں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔
جس شب حضرت سموئیلؑ کی روح عالمِ فانی سے عالمِ بقاء کی طرف پرواز کر گئی، زمین پر شور نہ تھا، مگر آسمان پر ہدایت کے ستارے خاموش ہو کر جھک گئے۔ سموئیلؑ کا وصال ایک نبی کی طبعی موت تھی، مگر روحانی دنیا کے لئے وہ ایک عہد کا اختتام اور ولایت کی وراثت کا آغاز تھا۔
وراثتِ روح اور خاموشی میں چھپا نور
حضرت سموئیلؑ کے جانے کے بعد اگرچہ زمین پر ان کا وجود نہ رہا، مگر ان کی روحانی وراثت باقی رہی۔ اُن کی کی گئی دعائیں، اُن کے سکھائے ہوئے اسباق، اُن کا اندازِ سکوت یہ سب ایک زندہ خزانہ بن گئے۔ اُن کی وراثت یہ تھی کہ ہر مخلص طالبِ حق آج بھی اُن کے سکوت سے سبق لیتا ہے۔
شیخ سعدی شیرازیؒ
به سخن گفتن مردِ دانا شود
به سکوتش خلایق توانا شود
ترجمہ:
دانش مند شخص اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے،
لیکن اس کی خاموشی سے پوری خلقت فیض پاتی ہے۔
تشریح:
یہ شعر حضرت سموئیلؑ کے عرفانی سکوت کا آئینہ ہے۔ اگرچہ وہ اپنی عمر کے اختتام پر خاموش ہو گئے، مگر ان کی خاموشی کسی کمزوری کا اظہار نہ تھی بلکہ ایسی معنویت رکھتی تھی جو ہزاروں الفاظ سے بلند تھی۔ اُن کی دعاؤں کا سکوت، اُن کی خاموش تربیت، اور ان کا باطنی نور آج بھی اہلِ دل کی رہنمائی کرتا ہے۔ نبی کا خاموش ہونا، دراصل وہ مقام ہوتا ہے جہاں گفتار کی جگہ تجلّیِ دل بولنے لگتی ہے۔
نتائج:
- نبی کا سکوت بھی تعلیم کا ذریعہ ہوتا ہے۔
- دعا، صبر، اور اخلاص ہی اصل قیادت کے ستون ہیں۔
- دنیاوی جاہ و جلال وقتی ہے، روحانی قیادت ابدی ہے۔
- خاموشی میں بھی نور ہوتا ہے اگر وہ اللہ سے جُڑی ہو۔
- حضرت سموئیلؑ کی وراثت آج بھی ہر حق کے متلاشی کو رہنمائی عطا کرتی ہے۔
اختتامیہ:
حضرت سموئیلؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ نبی کی اصل میراث الفاظ نہیں، بلکہ وہ نور ہوتا ہے جو خاموش دعاؤں اور اخلاص بھرے دلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ دنیا سے پردہ فرما گئے، مگر ان کا روحانی فیض آج بھی اُن دلوں کو جگاتا ہے جو سکوت میں ربّ کو تلاش کرتے ہیں۔
ربّ ہمیں بھی ایسا دل عطا کرے جو خاموشی میں بھی ہدایت پا لے، اور دعا میں وہ روشنی دیکھے جو نبی کے سکوت سے پھوٹتی ہے۔