حضرت سموئیلؑ کی ولادت اور نذرِ الٰہی
جب قلبِ انسانی برسوں کی پیاس سے ویران ہو جائے، اور زبانِ دعا سسکیوں کی مالا میں خاموشی کا رنگ بھر دے، تو اُس وقت عالمِ ملکوت سے ایک ایسی ندا اُبھرتی ہے جو صرف اُن نفوسِ قدسیہ کی قسمت میں آتی ہے، جن کے آنسو ربّ کی بارگاہ میں چراغِ نیاز بن کر جلتے ہیں۔ حضرت حنّہ کی التجا بھی ایک ایسا ہی نورانی نغمہ تھی، جو خاموشی کی زبان میں عرشِ الٰہی تک جا پہنچی۔ یہ سبق ہمیں ایک ایسی ماں کے اشکوں، عہدِ وفا اور روحانی فقر کی داستان سناتا ہے، جس نے نذر کی مشعل سے ایک نبی کی تقدیر رقم کی وہ نبی جو نہ صرف معبد کا خادم ٹھہرا بلکہ ربّانی پیغام کا علمبردار بھی بنا، اور قوم کا ہادی و رہبر۔
حضرت سموئیلؑ کی ولادت اور نذرِ صدق
حضرت حنّہ، طہارت و تقویٰ کی پیکر، مگر اولاد کی دولت سے محروم تھیں۔ اُن کا سینہ برسوں سے ایک ہی دعا کی دھڑکن سن رہا تھا، اور اُن کے لب ہر سال عبادت گاہ کی چوکھٹ پر ایک ہی ندا بلند کرتے تھے۔
مگر اِس بار اُن کی دعا میں ایک عہد چھپا ہوا تھا:
“اے ربّ الافواج! اگر تُو اپنی عاجز بندی پر نگاہِ کرم فرما کر مجھے فرزند عطا کرے، تو میں اُسے ہمیشہ کے لیے تیری بارگاہ میں نذر کر دوں گی، تاکہ وہ تیری خدمت میں زندگی بسر کرے۔”
یہ دعا اُس مالکِ عرش کی بارگاہ تک پہنچی، جو ہر دل کی گہرائی کو جانتا ہے۔ اور اُس نے اپنی رحمت سے حضرت حنّہ کو ایک بیٹا عطا فرمایا، جسے سموئیل کہا گیا یعنی “وہ جو خدا سے مانگا گیا ہو”۔
جب وہ بچہ سنِ شعور کو پہنچا، حضرت حنّہ نے اُس وعدے کو پورا کیا، اور اُسے عبادت گاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
یہ نذر، صرف ایک رسمی پیشکش نہ تھی، بلکہ وہ فقر تھا جو عشقِ الٰہی میں فنا ہو جاتا ہے یہی اصل نذر ہے، یہی قربانی کا اعلیٰ مقام ہے۔
عبادت میں پرورش کی جلوہ گری
حضرت سموئیلؑ نے ایلیؓ کاہن کے زیرِ سایہ عبادت گاہ میں اپنی روحانی تربیت پائی۔
جہاں دیگر بچے کھیلوں کی جانب مائل ہوتے تھے، حضرت سموئیلؑ اپنے ننھے ہاتھوں سے عبادت گاہ کی صفائی کرتے، مشعلیں روشن کرتے، اور ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے۔
ربّ العالمین نے اُن کے دل میں اپنی قربت کا ذائقہ اُس عمر میں چکھا دیا جب زبان نطق کے اسرار سے بھی ناآشنا تھی۔
حضرت بیدلؒ
گریۂ شب میں خدا را میتوان دید آشکار
آنکه با اشکِ دل آید، گردد او را رازدار
ترجمہ:
شب کی تنہائی میں بہتے اشکوں کے ساتھ خدا کو آشکار دیکھا جا سکتا ہے۔
جو دل کے گریہ کے ساتھ آتا ہے، وہ ربّ کے رازوں کا امین ہو جاتا ہے۔
تشریح:
شب کے سنّاٹے میں بہنے والا اشک، اگر صدق و خشیت کے ساتھ ہو، تو وہ عرش کے پردوں کو ہلا دیتا ہے۔
حضرت حنّہ کی آہ و زاری ایک ایسی روحانی تلوار تھی جس نے تقدیر کے بند دروازے کھول دیے، اور اُن کے اشک، دعاؤں کی زنجیر بن کر ربّ کی رحمت کو زمین پر کھینچ لائے۔
نتائج:
- دعا کی روحانی قوت وہ ہے دعا جو اشکوں سے بھیگی ہو، وہ ربّ العزت کے دربار میں رَد نہیں کی جاتی۔
- نذر کی حقیقی روح اپنی عزیز ترین شے کو ربّ کے حضور پیش کرنا قربانی کی بلند ترین شکل ہے۔
- عبادت میں تربیت کی اہمیت معبد کی فضا اور ربّ کی یاد ایک بچے کو نبوت کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے۔
- ماؤں کی دعائیں اور وعدے، نیت و نذر ایک نسل کی تقدیر رقم کر سکتی ہے۔
- صدا کی معرفت جو ربّ کی طرف سے آتی ہے، وہ دل کو بدل دیتی ہے اور بندے کو چراغِ ہدایت بنا دیتی ہے۔
اختتامیہ:
حضرت سموئیلؑ محض ایک نبی نہ تھے، بلکہ وہ وعدہ تھے جو ایک ماں کے اشک، عہد اور نذر سے جنم پایا۔ اُن کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جو دل اپنی طلب کو ربّ کے حضور صدق و نیاز سے رکھ دے، اُس کی خواہش نورِ نبوت بن کر جلوہ گر ہوتی ہے۔ اور وہ دعا جو خاموش ہو کر بھی رب تک پہنچے، وہ کبھی ضائع نہیں جاتی بلکہ وہی دعا قوموں کی رہبری کا چراغ بن جاتی ہے۔