وعدۂ رب اور انکارِ بنی اسرائیل
جب حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ فرعون کے دربار سے واپس تشریف لائے، تو رنج و غم میں ڈوبی ہوئی قومِ بنی اسرائیل، اپنے دلوں پر شکوہ لیے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ان کے لہجے میں مایوسی، نگاہوں میں بےبسی، اور زبان پر حرفِ شکایت تھا۔
وہ کہنے لگے:
“اے موسیٰؑ و ہارونؑ! تم دونوں سے ربّ العالمین خود حساب لے گا! تم نے ہمیں فرعون کے سامنے گناہگار اور مجرم ٹھہرا دیا، اب اُس کے داروغے ہمیں کوڑوں سے پیٹ رہے ہیں، ہماری زندگی تنگ ہو چکی ہے!”
یہ کلمات سن کر حضرت موسیٰؑ کا دل بھر آیا۔ وہ بارگاہِ الٰہی میں دستِ ادب پھیلائے عرض گزار ہوئے:
“اے میرے ربّ کریم! تُو نے اپنی اس مظلوم اُمت کو کیسا سخت امتحان دے دیا؟ کیا اسی لیے تُو نے مجھے مبعوث فرمایا؟ جب سے میں تیری طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں، قوم پر سختی اور بڑھ گئی ہے!”
تب ربّ ذوالجلال کی طرف سے ندا آئی:
“اے موسیٰؑ! عنقریب تُو دیکھے گا کہ میں فرعون کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔ میں اس پر اپنی قدرت کا قہر نازل کروں گا، یہاں تک کہ وہ تمہیں جانے کی اجازت دے گا، بلکہ تمہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گا!”
“یاد رکھ، میں وہی ربّ ہوں جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ پر ظاہر ہوا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ سرزمینِ کنعان، جہاں وہ پردیسی رہے، میں ان کی نسل کو وارث بناؤں گا۔ وہ وعدہ اب پورا ہونے کو ہے۔”
“میں نے بنی اسرائیل کی آہ و زاری سن لی ہے، ان کا سسکنا، ان کی فریاد میرے عرش تک پہنچی ہے۔ میں انہیں جبری مشقت سے نجات دوں گا، اور ان پر ایسے عذاب بھیجوں گا جو فرعون کے غرور کو خاک میں ملا دیں گے۔”
“جب میں انہیں اپنی پناہ میں لے لوں گا، تب وہ جان لیں گے کہ میں ہی ان کا ربّ ہوں۔ میں انہیں وہی سرزمین عطا کروں گا جس کا وعدہ میرے محبوبوں سے ہو چکا ہے۔ بے شک اَنَا خَیْرُ الْمُعَاھِدِین، میں وعدے نبھانے والا ہوں۔”
حضرت موسیٰؑ نے اس بشارتِ الٰہی کو قوم کے سامنے پیش کیا، لیکن غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی اس قوم کے دل پر یقین کا نور اُترنے سے قاصر تھا۔ مصیبت کی شدت نے اُن کے دلوں کو سخت کر دیا تھا۔ اُنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی دعوتِ امید کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
حضرت ناصر خسروؒ
دلِ خستہ را وعدۂ دیدہ دوخت
ولے کور کی بیند اسرارِ دوست؟
تشریح:
حضرت ناصر خسروؒ فرماتے ہیں: “دلِ شکستہ کو اگرچہ دیدارِ یار کا وعدہ دیا جائے، لیکن آنکھ اگر اندھی ہو تو حسنِ محبوب کو کیسے دیکھے؟” بنی اسرائیل کی روح غلامی میں اس حد تک زخمی ہو چکی تھی کہ وہ وعدۂ رب پر بھی یقین نہ کر سکے۔
نتائج:
- نبی کی فریاد، اس کی قوم کی محرومیوں کا آئینہ ہوتی ہے۔
- خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو کبھی بھولتا نہیں، چاہے انسان انتظار میں کمزور پڑ جائے۔
- آزمائش جب حد سے گزر جائے تو یقین ڈولنے لگتا ہے، لیکن نبی کا صبر وہ چراغ ہوتا ہے جو ہر شب کو منور کرتا ہے۔
- عہدِ خداوندی ہمیشہ غلبۂ حق کا اعلان ہوتا ہے، چاہے ابتدا میں انکار کی آندھیاں چلیں۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب بندہ اللہ کی راہ پر ہو، تو قوم کا انکار، زمانے کا طعن، اور دشمن کا ظلم سب اُس صبر کے پل ہیں جن پر چل کر نجات حاصل ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی دعا، خدا کی بشارت، اور انکار کی تلوار، تینوں مل کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ربّ کا وعدہ کبھی شکست نہیں کھاتا، اور آخرکار، نبی کی صداقت فتح کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔