حضرت موسیٰ ملکِ مصر میں (حصہ دوم)

فرعون کے دربار سے واپس جاتے ہوئے بنی اسرائیلیوں کے لوگوں کی ملاقات حضرت موسیٰ و حضرت ہارون سے ہوگئی۔ بنی اسرائیلیوں نے جب آپ دونوں کو دیکھا تو کہنے لگے!” آپ دونوں سے خدا تعالیٰ ہی پوچھے گا! آپ دونوں نے فرعون کی نظر میں ہمیں مجرم بنا کر رکھ دیا ہے اور اب فرعون کے داروغے لٹھ کر ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
بنی اسرائیل کے لوگوں کا غصہ دیکھ کر حضرت موسیٰ خدا تعالیٰ سے مخاطب ہوئے! اے میرے رب! آپ نے ان بے چاروں کو کس عذاب میں ڈال دیا ہے؟ کیا اس لئے آپ نے مجھے یہاں بھیجا؟ جب سے میں تیرے فرمان کے مطابق ان لوگوں کا مقدمہ فرعون کے دربار میں لے گیا ہوں بجائے بنی اسرائیلیوں کے حق میں کچھ اچھا ہونے کے ان کی سختی اور بڑھ گئی ہے۔
تب خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کرکے فرمایا! اے میرے بندے موسیٰ! اب دیکھنا میں فرعون کے ساتھ کیا کرنے جا رہا ہوں۔ میں فرعون پر عذاب نازل کرکے اس قدر مجبور کر دوں گا کہ وہ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے گا بلکہ خود اپنے ملک سے نکال باہر کرے گا۔ یاد رکھ موسیٰ! میں ہی” اَلْقَوی” ہوں۔ میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب پر اس حیثیت سے ظاہر ہوا اور اُن سے عہد بھی کیا کہ کنعان کی سر زمین جہاں وہ پردیسی تھے انہیں دے دوں گا تاہم وہ اس عہد کو پورا ہوتے نہ دیکھ پائے۔ اب میں اپنے عہد کو نبھانے جا رہا ہوں کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کا کراہنا سن لیا ہے جن سے مصری جبری مشقت لے رہے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ میں مصریوں سے انتقام لینے کے لئے اپنی قدرت بڑھا کر انہیں بڑے بڑے عذابوں میں مبتلا کردوں گا بلکہ اُن کی جبری مشقت سے بھی تمہیں نجات دلاؤں گا۔ جب میں تمہیں اپنے سایہء عافیت میں لے لوں گا تو تم اپنے رب کی فتح و نصرت دیکھو گے اور جان جاؤگے کہ میں خدا تعالیٰ ہی تمہارا رب اور صاحبِ عہد ہوں جو تمہیں مصریوں کی غلامی سے نکال کر لایا۔ میں تمہیں وہاں سے نکال کر اس سر زمین میں لے جاؤں گا جو تمہیں دے دینے کا وعدہ میں نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب سے کیا تھا۔ “اَنَا خَیْرُ الْمُعَاھدِین” (بے شک میں عہد نبھانے والے میں بہترین ہوں) حضرت موسیٰ نے خدا تعالیٰ کا یہ پیغام بنی اسرائیل تک پہنچایا لیکن بیگار کی سختیوں سے تنگ آکر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ پر یقین کرنے سے انکار کردیا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔