حضرت یحییٰؑ سے سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تصدیق

اچھا خاصا عرصہ گزر گیا کہ حضرت یحیٰیؑ جو ”غسلِ تطہیر (بپتمسہ) دینے والے“ کے نام سے مشہور تھے، صوبۂ یہُودِیہ کے بیابانی علاقے میں تشریف لے گئے اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں کو یہ تبلیغ کرنے لگے: ”لوگو! سلطنتِ الٰہیہ کا ظہور ہونے والا ہے۔ لہٰذا اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو جاؤ!“ حضرت یحیٰیؑ کا ذکرِ خیر اللہ کے نبی حضرت اِشعِیاؑ کی وساطت سے یوں آیا ہے کہ ”بیابان میں یہ صدا گونج رہی ہے: ’لوگو! مولاؑ کے استقبال کے لئے راہ تیار کرو! آپؑ کا راستہ سیدھا کرو!‘“ حضرت یحیٰیؑ اونٹ کے بالوں سے بنا لباس پہنے اور کمر کے گرد چمڑے کی پیٹی باندھے رہتے تھے۔ آپؑ کا کھانا بس ٹڈیاں اور جنگلی شہد ہوتا۔ آپؑ کی دعوت و تبلیغ کے طفیل یروشلم، بلکہ سارے صوبۂ یہُودِیہ اور دریائے اُردن کے گِرد و نواح سے لوگ جوق در جوق آپؑ کے حضور آتے رہتے تھے۔ لوگ آپؑ کے حضور اپنے گناہوں کا اِعتراف کرتے اور دریائے اُردن میں آپؑ کے دستِ مبارک پر غسلِ تطہیر کی صورت میں بیعت کرتے تھے۔ جس وقت حضرت یحیٰیؑ نے یہ دیکھا کہ اِفرِیسی اور صدُوقی فرقوں کے بہت سے لوگ میرے پاس غسلِ تطہیر کی بیعت لینے کی غرض سے آ رہے ہیں، تو اُن سے فرمایا: ”سانپ کے بچّے سنپولئے! تم سے کس نے کہہ دیا ہے کہ ’صرف اِس طرح غسل لے لینے سے تم غضبِ الٰہی سے امان پا جاؤ گے‘؟ اِس کے ساتھ ایسے کام کر کے دکھاؤ جن سے یہ ثابت ہو کہ تم نے صدقِ دل سے رجوع اِلی اللہ کر لیا ہے! اپنے دلوں سے یہ خوش‌فہمی نکال دو کہ ’ہم آلِ ابراہیمؑ ہیں اَور ہماری شفاعت ضرور ہوگی!‘ مَیں تمھیں یہ حقیقت بتائے دیتا ہوں کہ خدا چاہے، تو اِن پتھروں سے بھی حضرت ابراہیمؑ کے وارث پیدا کر دے! عدالتِ الٰہی کا کلھاڑا تو نشانہ لینے کے لئے درختوں کی جڑوں پر گویا رکھا جا چکا ہے۔ جو درخت بھی کارآمد پھل نہیں لائے گا، کاٹ کر جلا دیا جائے گا۔ مَیں تو تمھیں صرف پانی کے غسلِ تطہیر سے بیعت کرواتا ہوں، مگر عنقریب اُس ہستی کا ظہور ہونے والا ہے جو کسی کو روحِ خدائے اقدس سے تطہیر کرے گی، تو کسی کو جہنم کی آگ کا مستحق قرار دے گی۔ وہ آنے والی ہستی مجھ سے کہِیں عظیم‌ تر ہے۔ مَیں تو آپؑ کے نعلینِ مبارک کے تسمے کھولنے کے بھی لائق نہیں۔ جس طرح تم لوگ بھوسے اور دانوں کو چھاج کے ذریعے الگ الگ کرتے ہو، اُسی طرح وہ طالحین اور صالحین کو علٰیحدہ علٰیحدہ کر دیں‌گے۔ وہ بھوسے جیسے بےکار لوگوں کو جہنم کی کبھی نہ بجھنے والی آگ میں جھونک دیں‌گے اور اناج جیسے کارآمد لوگوں کو جنت میں اپنا قرب عطا فرمائیں‌ گے۔“ اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد سیدنا عیسٰیؑ صوبۂ گلِیل سے حضرت یحیٰیؑ کے پاس خدا کی فرماں‌برداری کی بیعت کی شرط پوری کرنے کے لئے دریائے اُردن کے کنارے تشریف لائے، مگر حضرت یحیٰیؑ معذرت کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: ”قبلہ! مَیں تو خود آپؑ کی بیعت کرنے کا محتاج ہوں۔ بھلا! آپؑ کی تشریف‌آوری میرے پاس؟“ سیدنا عیسٰیؑ فرمانے لگے: ”اب تم ایسا ہی ہونے دو! کیوں کہ ہمیں منشائے الٰہی کی خاطر یہ سب کچھ کرنا لازم ہے۔“ اِس پر حضرت یحیٰیؑ آمادہ ہو گئے۔ سیدنا عیسٰیؑ جوں ہی بیعت کے بعد پانی سے باہر آنے لگے تب سیدنا عیسٰیؑ پر آسمان کے پردے کھل گئے۔ آپؑ پر روحِ خدائے اقدس مانندِ ہُما اتری۔ ”ساتھ ہی عرشِ مُعلّٰی سے یہ آواز آئی: ”یہ میرا پروردۂ محبوب ہے۔ اِس سے مَیں سراپا راضی ہوں۔

درج ذیل سوالات جواب کے جواب دیں۔