تصدیق اور نبوّت کی صدائے صدق

نبوّت کے راستے میں سب سے پہلا چراغ، تصدیق کی روشنی ہے۔ جب کوئی ہستی آسمان سے مقرر ہو کر زمین پر آتی ہے، تو اس کی سچائی پر پہلا گواہ خود زمین کے اُن ہستیوں کو بنایا جاتا ہے جن کی روحیں پہلے ہی سے رب تعالیٰ کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہوتی ہیں۔ تصدیق ایک ایسی روحانی مہرتصدیق ہے جو ربِ جلیل کی مرضی سے ایک نبی کے وجود کو دوسری نبیانہ روح کے ذریعے ظاہر کرتی ہے تاکہ اہلِ زمین جان لیں کہ روشنی کا سفر کسی نئے راستے سے نہیں، بلکہ ایک مقدس تسلسل سے جاری ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آسمان کی خاموشی، زمین کی صدا سے ہم کلام ہو جاتی ہے۔ یہی تصدیق اُس نور کے لئے تھی جو بعد ازاں سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے چہرۂ نازنیں سے جھلکی، اور روحوں کو بیدار کر گئی۔

سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تصدیق

کافی مدت بیت چکی تھی کہ حضرت حضرت یحییٰؑ، جو ”غسلِ تطہیر“ دینے والے کے لقب سے جانے جاتے تھے، صوبۂ یہودیہ کے بیابانی علاقوں میں تشریف لے گئے۔ حضرت یحییٰؑ وہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو گرج دار لہجے میں لوگوں تک پہنچانے لگے: “اے لوگو! سلطنتِ الٰہیہ قریب آ پہنچی ہے، پس اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرو اور اپنے نفس کو پاک کرو!”
حضرت یحییٰؑ کی بشارت وہی تھی جس کی خبر اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت اشعیاؑ نے دی تھی:
”بیابان میں ایک صدا گونج رہی ہے کہ ربِ جلیل کے استقبال کے لئے راہ ہموار کرو! اُس کے راستے کو سیدھا کرو!“

حضرت یحییٰؑ کے ظاہری لباس میں دنیا کی زیبائش نہ تھی۔ آپؑ اونٹ کے بالوں سے بنی پوشاک پہنتے اور چمڑے کی پٹی باندھتے۔ آپؑ کا کھانا صرف ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا۔ آپؑ کی صدا کی حرارت اتنی شدید تھی کہ یروشلیم اور یہودیہ کے گوشے گوشے سے مرد و زن جوق در جوق آتے۔ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور دریائے اُردن کے پانی میں حضرت یحییٰؑ کے ہاتھ پر غسلِ تطہیر کے ذریعے بیعت کرتے۔

جب حضرت یحییٰؑ نے یہ دیکھا کہ فریسی اور صدوقی فرقوں کے بہت سے افراد بھی محض ظاہری غسلِ تطہیر کی نیت سے آ رہے ہیں، تو حضرت یحییٰؑ نے پُرشوکت لہجے میں فرمایا: “اے سانپ کے بچو! تم نے یہ کیونکر سوچ لیا کہ تم صرف پانی کے غسلِ تطہیر سے رب تعالیٰ کے غضب سے بچ جاؤ گے؟ اعمال کے وہ پھول لاؤ جو توبہ کی خوشبو سے مہکتے ہوں۔ یہ نہ سمجھو کہ تم ابراہیمؑ کی اولاد ہو، سو تمہاری شفاعت ضرور ہوگی! رب تعالیٰ تو چاہے تو ان پتھروں سے بھی اپنے ولی پیدا کر دے۔

“یاد رکھو! عدالتِ الٰہیہ کا کلہاڑا درختوں کی جڑوں پر رکھ دیا گیا ہے۔ جو درخت پھل نہیں لائے گا، وہ کاٹ کر آگ میں جھونک دیا جائے گا۔” “میں تمہیں پانی سے غسلِ تطہیر دیتا ہوں، لیکن ایک عظیم تر ہستی آنے والی ہے، جو روحِ خدائے اقدس سے تطہیر فرمائے گی اور فیصلے کرے گی کہ کون روح نور کی طرف جائے اور کون آگ کی طرف۔ میں تو عظیم تر ہستی کے نعلین کھولنے کے بھی لائق نہیں۔”

“جس طرح تم بھوسے کو اناج سے جدا کرتے ہو، اسی طرح وہ بھی صالح اور طالح کو جدا کرے گا۔ بھوسے کو وہ ہمیشہ جلنے والی آگ میں ڈالے گا، اور اناج کو اپنے گھر میں رکھے گا۔”

اسی عرصے کے بعد، ایک دن دریائے اُردن کے کنارے حضرت یحییٰؑ کے پاس ایک عظیم تر ہستی ایسا نوری چہرہ آیا جس کی بابت حضرت یحییٰؑ پہلے بیان کر چکے تھے۔ جسے دیکھ کر حضرت یحییٰؑ کی زبان خاموش اور دل لرزاں ہو گیا۔ وہ چہرہ، سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا تھا، جن کے قدموں کی آہٹ نے وادیوں کو مہکا دیا۔
حضرت یحییٰؑ نے عرض کیا: “اے قبلہ! مَیں تو خود آپؑ کی بیعت کا محتاج ہوں، اور آپؑ میرے پاس تشریف لائے ہیں؟”
لیکن سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: یحییٰؑ یہ ضرور ہونا چاہیے، تاکہ ہم رب تعالیٰ کے حکم کو پورا کریں۔”

جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ دریائے اُردن میں حضرت یحییٰؑ سے غسلِ تطہیر لیا جب آپؑ پانی سے نکلنے لگی، تو آسمان کے پردے چاک ہو گئے۔ روحِ خدائے اقدس مانندِ ہُما اُتر آئی اور سیدنا حضرت عیسیٰؑ پر سایہ فگن ہو گئی۔ پھر آسمان سے آواز آئی: ”یہ میرا محبوب بندہ ہے، جس سے مَیں پوری طرح راضی ہوں۔“ یہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کی آسمانی تصدیق تھی، جو زمینی درویش کی زبانی مکمل ہوئی۔


حضرت بُو علی قلندرؒ
مژده ای دل که دگر باد صبا باز آمد
ساقیِ عشق ز میخانه به آواز آمد

ترجمہ:
اے دل! خوش‌خبری سن، کہ صبا کی ہوا پھر سے چلنے لگی ہے،
عشق کا ساقی میخانے سے صدا کے ساتھ آ پہنچا ہے۔

تشریح:
یہ شعر اُس روحانی بشارت کی طرف اشارہ ہے جو حضرت یحییٰؑ کے کلام سے ظاہر ہوئی۔ وہ بادِ صبا کی طرح نرمی اور ہوا کی طرح پیغامِ عشق لے کر آئے تاکہ لوگوں کو تیار کیا جا سکے اُس ساقیِ عشق کے استقبال کے لئے جو محبت، تطہیر، اور قربِ الٰہی کی شراب پلانے آ رہا تھا۔ حضرت یحییٰؑ وہ صدا تھے جو گونجی تاکہ لوگ آسمانی پیغام کے لیے اپنے دلوں کے دروازے کھول سکیں، اور سیدنا حضرت عیسیٰؑ وہ ہستی تھے جن کے ظہور سے وہ صدا مکمل ہوئی۔


نتائج:

  1. تصدیقِ نبوت کا روحانی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ یہ محض رسمی اعلان نہیں بلکہ ایک نورانی رابطہ ہے، جو دو نبیوں کے درمیان روحانی ہم آہنگی کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔
  2. حضرت یحییٰؑ کی شخصیت میں وہ سچائی نظر آتی ہے جو کسی بھی آنے والے نبی کی حقانیت کو پہچاننے کے لئے لازم ہے۔ وہ پہلے خود پاک ہوئے، اور پھر دوسروں کو پاکیزگی کی دعوت دی۔
  3. سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی پہلی عوامی ظہور و تصدیق اسی واقعے میں مکمل ہوتی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ عظمت خاموشی، فروتنی، اور روحانی ترتیب کے ساتھ نازل ہوتی ہے۔
  4. یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آسمانی تصدیق انسانی تصدیق سے بلند ہے، لیکن دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت یحییٰؑ کی زبان اور آسمان کی آواز، دونوں نے مل کر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کی مہر لگائی۔
  5. انسانی دل کی زمین جب تیار ہو جائے، تو وہاں باد صبا کی طرح نور اُترتا ہے، اور محبت کی فصل اگتی ہے۔ حضرت یحییٰؑ نے دلوں کو نرم کیا، اور حضرت عیسیٰؑ نے نور اُتارا۔

اختتامیہ

یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نبوّت ایک مسلسل روشنی کا سفر ہے، جس میں ہر قدم، ہر صدا، اور ہر تصدیق ربانی ترتیب کا حصہ ہوتی ہے۔ حضرت یحییٰؑ کی تصدیق فقط ایک اعتراف نہ تھی، بلکہ ایک عالمِ روح کی گواہی تھی کہ آسمان کے دروازے کھلنے کو ہیں۔ ان کی زبان، زمینی چراغ تھی جو آنے والے آسمانی نور کے لئے جلائی گئی۔ جن کی روح میں سچائی ہو، وہ دوسرے کی حقانیت کی روشنی سے خائف نہیں ہوتے، بلکہ اُسے سلام کرتے ہیں۔ یہ تصدیق دراصل اُس وحدتِ روحانی کا اعلان ہے جس میں ہر نبی، دوسرے نبی کے چراغ کو جلاتا ہے تاکہ دنیا تاریک نہ ہو، اور حق کی روشنی ہمیشہ باقی رہے۔ اور جب وہ چراغ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھ میں آیا، تو زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ مٹ گیا اور محبت، نجات، حکمت، اور شفاء کی باد صبا چلنے لگی۔