ختنۂ و تقدیمِ مسیحؑ

ہر وہ لمحہ جو ربّ کریم کی رضا سے عبارت ہو، فقط ایک لمحہ نہیں بلکہ ازل سے ابد تک بکھرتی روشنی کا مقام بن جاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کے آٹھویں دن جب ختنہ کا عمل شریعتِ ابراہیمی کے مطابق ادا کیا گیا، تو یہ ایک رسم نہ رہی بلکہ روحانی طہارت کا وہ ربانی نشان بن گئی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ بندے کے درمیان وفا، وفاداری اور نسبتِ نورانی کی علامت ہے۔ یہ وہ ساعت تھی جہاں جسم کی پاکیزگی، روح کی رضا، اور رب کی مرضی یکجا ہو کر نجات کے پہلے دروازے کو روشن کر رہی تھی۔ یہ ختنہ فقط موسوی شریعت کی تکمیل نہ تھی بلکہ اس نور کے ظہور کی پہلی گواہی تھی جو ظلمت کی دیواریں توڑنے آیا تھا۔

ایک آسمانی عہد کی تجدید

جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کو آٹھ دن مکمل ہوئے تو حسبِ شریعت ان کا ختنہ کیا گیا۔ وہی نام عیسیٰؑ تجویز کیا گیا جو حضرت جبرائیلؑ نے بشارت کے وقت بی بی مریمؑ کو عطا کیا تھا۔ بعد ازاں، جب حضرت یوسفؓ نجار اور بی بی مریمؑ کی طہارت کی مدت پوری ہوئی، تو وہ اپنے رب تعالیٰ کے حضور حاضری کے لئے سیدنا عیسیٰؑ کو لے کر بیت المقدس روانہ ہوئے۔ جیسا کہ آسمانی صحیفہ فرماتا ہے کہ ہر پہلوٹھا فرزند ربِ جلیل کے لئے مخصوص کیا جائے۔ اس فریضے کی بجا آوری کے طور پر انہوں نے تورات کی تعلیم کے مطابق فقیرانہ قربانی پیش کی جن میں قمریوں کا جوڑا یا کبوتروں کے دو بچے شامل ہوںم

یروشلیم کی روحانی فضا میں اس وقت ایک کامل و ولی اللہ حضرت شمعونؓ موجود تھے جن پر روحِ اقدس کی چھایا تھی۔ انہیں الہام دیا گیا تھا کہ ربّ کا خلیفہ جب تک ان کی نگاہوں کے سامنے نہ آ جائے، ان کی روح دنیا سے پردہ نہ کرے گی۔ اسی روحانی ہدایت کے تحت وہ حرم شریف میں وارد ہوئے۔ جب حضرت یوسفؓ نجار اور بی بی مریمؑ سیدنا حث عیسیٰؑ کو شریعت کے مطابق پیش کرنے آئے تو حضرت شمعونؓ نے بچے (سیدنا عیسیٰؑ) کو گود میں لیا، آنکھوں کو اشک بار کیا اور زبان سے حمد و ثناء کی روانی ہوئی۔

اے ربِ جلیل، اب تُو اپنے بندے کو سلامتی سے واپس بلا لے، کیونکہ تیری نجات آنکھوں نے دیکھ لی ہے۔ وہ نجات جو تو نے اقوامِ عالم کے لئے مقرر فرمائی ہے، وہ نور جو تمام قوموں پر ظاہر ہوگا، وہ جلال جو بنی اسرائیل کے لئے عزت کا نشان ٹھہرے گا۔

بی بی مریمؑ اور حضرت یوسفؓ نجار اس روحانی کلام پر متحیر ہوئے۔ حضرت شمعونؓ نے دونوں پر دعاؤں کی بارش کی اور پھر بی بی مریمؑ کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ بچہ (سیدنا عیسیٰؑ) بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بھی بنے گا اور آزمائش بھی۔ بعض اس کے سبب برباد ہوں گے، اور بعض نجات پائیں گے۔ یہ بچہ (سیدنا عیسیٰؑ) ایک ایسی نشانی ہوگا جس کی مخالفت کی جائے گی تاکہ انسانوں کے دلوں میں چھپے راز بے نقاب ہو جائیں۔ اے مریمؑ، تیرا دل بھی اس آزمائش سے گزرے گا اور غم کی تلوار تجھے چھوئے گی۔

اسی لمحے بیت المقدس میں موجود قبیلہ عاشر کی بزرگہ ولیہ بی بی حنّا بنتِ فنوئیلؓ، جو بیوگی کی چوراسی بہاریں دعا و صیام میں گزار چکی تھیں، سامنے آئیں۔ جب ان کی نگاہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ پر پڑی تو ان کی روح وجد میں آ گئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتی رہیں اور یروشلیم میں ان سب کو خوشخبری دیتی رہیں جو بنی اسرائیل کی نجات کے منتظر تھے کہ یہی بچہ (سیدنا عیسیٰؑ) آزادی کا ذریعہ اور ربانی وعدے کی تکمیل ہے۔

عبادت کی ادائیگی کے بعد حضرت یوسفؓ نجار اور بی بی مریمؑ واپس ناصرہ تشریف لے گئے، جہاں وہ نورانی بچہ (سیدنا عیسیٰؑ) پرورش پاتا گیا، حکمت میں بڑھتا گیا، اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس پر مسلسل سایہ فگن رہا۔


شیخ سعدیؒ
به کعبه گر گذری ای خُرَيدِ نور
نگر به دل، که بود کعبه در حضور

ترجمہ
اگر تُو نور کا طلبگار ہو اور کعبہ کی زیارت کا ارادہ رکھتا ہو،
تو اپنے دل کی طرف دیکھ، ممکن ہے کہ کعبہ تیری حضوری میں ہی ہو۔

تشریح
شیخ سعدیؒ کی اس رمزآمیز اور معرفت بھری سخن میں دل کی پاکیزگی اور باطنی حضوری کا اشارہ ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے مقدس وجود کو دیکھ کر حضرت شمعونؓ اور بی بی حنّاؓ پر جو کیفیت طاری ہوئی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلی صرف جسمانی آنکھوں سے نہیں بلکہ باطن کی بینائی سے نظر آتی ہے۔ کعبہ اگرچہ ظاہری قبلہ ہے، مگر دل اگر پاک ہو تو وہاں حضوریٔ الٰہی قائم ہو سکتی ہے۔


نتائج

شریعت کی پاسداری، ختنہ اور قربانی کی ادائیگی نے ثابت کیا کہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نہ صرف رب تعالیٰ کے برگزیدہ تھے بلکہ شریعتِ موسوی کے عہد کے امین بھی تھے۔

حضرت شمعونؓ اور بی بی حنّاؓ کا الہامی عرفان اس بات کا بیان ہے کہ دل اگر خالص ہو تو رب تعالیٰ اپنے راز بندے پر منکشف کر دیتا ہے۔

سیدنا عیسیٰؑ کی ولادت اور ان کا بیت المقدس میں ظہور اقوامِ عالم کے لیے نجات کے دروازے کھولنے کی دلیل بن گیا۔

بی بی مریمؑ کے لئے پیش گوئی، کہ ان کے دل پر غم کی تلوار چلے گی، اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عشق صرف خوشی کا نہیں بلکہ آزمائش کا راستہ بھی ہے۔

نجات اور حضوری کا راز جسمانی عبادت سے زیادہ دل کی صفائی، نیت کی خالصی، اور روح کی پیاس میں چھپا ہے۔


اختتامیہ
یہ واقعہ ایک روحانی سفر کا بیان ہے، جہاں ختنۂ تقدس، قربانی، زیارت اور بشارت جیسے مراحل سے ایک ایسی حقیقت جنم لیتی ہے جو ہر صدی کے دلوں میں ہدایت بن کر چمکتی ہے۔ حضرت شمعونؓ اور بی بی حنّاؓ جیسے ولی، ہم جیسے گم گشتہ راہیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ اگر انتظار سچا ہو، نیت پاک ہو، اور آنکھیں عشق سے بھری ہوں تو رب تعالیٰ خود اپنے نور کو انسان کے سامنے ظاہر فرما دیتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ اسی نور کا مجسم اظہار ہیں جن کی حضوری نجات ہے، جن کا دیدار سکون ہے، اور جن کا پیغام ازل سے ابد تک باقی رہے گا۔