خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کے متعلق تعلیم

زندگی کی فطری دوڑ میں انسان اکثر رزق، لباس، اور ضروریاتِ دنیا کے فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی فکروں کو خدا تعالیٰ کی قدرت و رحمت پر چھوڑ دیں، کیونکہ وہی ربُّ العرش، جو چرند پرند کو رزق دیتا ہے، وہی انسان کو بھی عطا کرنے والا ہے۔ اصل توکل یہ نہیں کہ ہاتھ باندھ کر بیٹھا جائے بلکہ یہ ہے کہ دل سے پریشانی کو نکال کر، بھروسے کو عبادت کا درجہ دیا جائے۔ جو دل اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین رکھتا ہے، وہ کسی وسوسے یا حرص کی بیڑیاں قبول نہیں کرتا۔

دو آقاؤں کی یکساں خدمت

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
بندۂ مومن دو آقاؤں کی یکساں خدمت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یا تو وہ ایک سے دل لگا لے گا اور دوسرے سے رخ موڑ لے گا، یا ایک کی وفاداری میں خود کو وقف کرے گا اور دوسرے کی اطاعت سے کنارہ کش ہو جائے گا۔

پس یاد رکھو! تم ربِّ کائنات، مالکِ یوم الدین کی خدمت اور دنیا کے فانی آقاؤں کی خدمت ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا دل اگر خالقِ حقیقی کے حضور جھک گیا، تو مخلوق کی چمک دمک تمہیں دھوکہ نہ دے گی۔

اپنی جان کے رزق کی فکریں دل میں جگہ نہ دیں، اور نہ ہی اپنے جسم کی پوشاک کے لئے پریشان ہوں، کیونکہ جو جان، ربِّ کائنات کے امر سے وجود میں آئی ہے، کیا وہ طعامِ فانی سے کمتر ہے؟ اور جو جسم، احسنِ تقویم میں تخلیق ہوا، کیا وہ لباسِ زوال پذیر سے کمتر ہے؟ یقیناً نہیں!

پس دل کو ان اندیشوں سے پاک کرو، اور ہر حاجت و ضرورت کو اُس خداوندِ علیم کے سپرد کر دو، جو تمہاری حاجت کو تمہارے سوال سے پہلے جانتا ہے، اور جو اپنی مخلوق کے لیے کفایت کرنے والا ہے۔

فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں پر نگاہ کرو، نہ وہ زمین میں بیج بوتے ہیں، نہ فصل کاٹتے ہیں، نہ غلّہ ذخیرہ کرتے ہیں، لیکن تمہارا ربِّ ذوالجلال انہیں ہر روز رزق عطا فرماتا ہے، تو کیا تم اُس کریم پروردگار کے نزدیک اُن پرندوں سے کم عزیز ہو؟ ہرگز نہیں، بلکہ وہ تمہاری حاجات سے پہلے تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے اور اپنی ربوبیت سے تمہیں بھی کفایت فرماتا ہے۔

تم اپنی عمر میں اضافے کے لئے جو فکر کے بوجھ تلے دبے رہتے ہو، اس کا حاصل ہی کیا ہے؟ کیا غم و اندیشہ تمہیں حیات میں ایک لمحہ بھی بڑھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ فکر و غم تو دل کی روشنی کو کھا جانے والی دیمک ہے، جو سکونِ روح کو مٹا دیتی ہے اور توکل کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔

کھیتوں میں کھلتے نرگس و لالہ کے حسن پر نگاہ ڈالو! نہ وہ سوت کاتتے ہیں، نہ لباس بُنتے، مگر اُن کا جمال ایسا ہے کہ بادشاہِ جہاں کی شان بھی اُس کے سامنے ماند پڑ جائے۔ پس اگر ربِّ ذوالجلال اُس گھاس کو، جو آج ہے اور کل راکھ ہو جائے گی، ایسا حسین لباس عطا کرتا ہے، تو اے کم یقین رکھنے والے انسان! کیا وہ تمہیں اپنی نعمتوں سے محروم رکھے گا؟ یقیناً نہیں، وہی تو ربِ کریم ہے جو ہر مخلوق کی زینت کا کفیل ہے۔

پس تم اپنے دل و عمل کو سلطنتِ الٰہیہ کے تابع کر دو، اور اپنی زندگی کو رضاے الٰہی کے سانچے میں ڈھال لو، تب تمہارے لئے وہ سب کچھ میسر کر دیا جائے گا جو تمہارے لئے خیر و فلاح کا ذریعہ ہے۔ آنے والے کل کی فکر میں خود کو نہ گھلاؤ، کیونکہ ہر دن اپنی آزمائش کے ساتھ آتا ہے، اور ربُّ العالمین ہر دن کا کفیل ہے، ہر پریشانی کا حل اسی کے خزانوں میں پوشیدہ ہے۔


حکیم سنائیؒ:
توکل بر خدایِ خود سپاری نگر در حالِ مرغانِ بی‌زاری

ترجمہ:
اپنے ربّ پر بھروسہ کر، بے فکری سے اڑتے پرندوں پر نظر ڈال۔

تشریح:
حکیم سنائیؒ اپنے اس بلیغ شعر میں توکلِ حقیقی کا آئینہ پیش کرتے ہیں۔ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب بندہ دلِ یقین کے ساتھ ربِّ کائنات پر بھروسہ کرتا ہے تو اُسے نہ دنیا کے اسباب کی پیچیدگیوں میں الجھنے کی حاجت رہتی ہے، نہ حرص و طمع کی تاریکیوں میں بھٹکنے کی ضرورت۔ پرندے جو نہ زمین میں ہل چلاتے ہیں، نہ گوداموں میں ذخیرہ کرتے ہیں، اُن کی روزی خود ربُّ العرش اُن تک پہنچاتا ہے۔ یہ منظر قدرتِ الٰہی کے عدل و رحمت کی زندہ دلیل ہے۔


نتائج :

  1. توکل، ایمان کی روح اور دل کی بینائی کا روشن چراغ ہے، جو بندے کو نورِ یقین میں مستغرق کر دیتا ہے۔
  2. دنیا کی حرص و آز دل کو تنگی و اضطراب کی طرف لے جاتی ہے، جب کہ بھروسہ بندے کو بارگاہِ ربّ جلیل کے قرب سے ہمکنار کرتا ہے۔
  3. جو دل سلطنتِ الٰہیہ کو اپنی زندگی کا مرکز بناتا ہے، دنیا اُس کے قدموں میں رکھی جاتی ہے، نہ کہ وہ دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے۔
  4. رزق کے اندیشے میں خود کو گلا دینا، نہ صرف روح کو پژمردہ کرتا ہے بلکہ عمر کی برکت کو بھی زائل کر دیتا ہے۔
  5. جو ربِّ ذوالجلال پر بھروسہ کرتا ہے، وہ ہر پتے کی جنبش اور پرندے کی پرواز سے سکون اور اطمینان کا درس پاتا ہے۔

اختتامیہ:

سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نصیحت ہمیں حیاتِ دنیا کے سب سے بیش قیمت اصول کی یاد دہانی کرواتی ہے: کہ کامل بھروسہ فقط اسی پر روا ہے جو ازل سے باقی ہے اور ابد تک قائم، جو کبھی بدلتا نہیں، جو ربُّ العرش العظیم ہے۔ بندۂ مومن کے لیے راہِ مستقیم یہی ہے کہ اپنی زندگی کا مرکز و محور سلطنتِ الٰہیہ کو بنا لے، اور روزانہ کی فکروں کو سجدۂ رضا میں ڈال کر، ربِ کریم کی بارگاہ میں ترکِ اختیار کے ساتھ پیش کر دے۔ جب دل، نورِ توکل سے روشن ہو جائے، تو ہر دن خواہ سخت ہو یا نرم، آزمائش ہو یا راحت، دل کو وہ سکونِ جاں عطا ہوتا ہے جو صرف رب پر کامل یقین کے سائے میں نصیب ہوتا ہے۔ اور یہی یقین، بندے کو بے خوفی کا سلیقہ اور رضا کا ذوق عطا کرتا ہے۔