خلیلؑ کی وفات اور وارثِ نور کا ظہور
جب خلیل اللہؑ کی زندگی اپنی آخری ساعتوں کی طرف بڑھ رہی تھی، تو وہ آسمانی قربت کی جانب واپسی کے لیے تیار تھے۔ یہ صرف ایک انسان کا رخصت ہونا نہ تھا، بلکہ وہ لمحہ تھا جب ایک نبی کی دعاؤں، قربانیوں، وعدوں، اور برکتوں کی زمینی امانت کو ایک نئی نسل کے سپرد کیا جا رہا تھا۔
یہی وہ مقام تھا جہاں روحانی وراثت ایک قافلے کی شکل اختیار کرنے والی تھی، جس کا کارواں نجات کے سفر تک پہنچے گا۔
ابراہیمؑ نے اپنی عمرِ مبارک کی بلندیوں پر، اپنے بیٹے اسحاقؑ کو اپنی تمام میراث کا امین بنایا۔
جائیداد، ریوڑ، زمینیں، برکتیں سب کچھ اُن کے سپرد کیا، اور دیگر بیٹوں کو بھی عطیہ دے کر اُنہیں مشرق کی طرف بھیج دیا تاکہ نسلوں کی راہیں رب کی حکمت کے مطابق جدا ہو جائیں۔
پھر وہ ساعت آئی جب ابراہیمؑ نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کیں۔
ابراہیمؑ نے اپنی عمرِ مبارک کے 175 برس مکمل کیے تھے
ایک عمر جو اطاعت، ہجرت، دعا اور قربانی کے ہر لمحے سے لبریز تھی
اور اب وہ اپنے ربِّ علیم و حکیم کے حضور لوٹ چکے تھے۔
ان کے دو فرزند، اسحاقؑ اور اسماعیلؑ، محبت اور سکوت کے ساتھ اُنہیں دفنانے کے لیے اُس غار میں لے گئے
جو ممرے کے قریب اُس کھیت میں تھا جسے خلیلؑ نے حِتی قبیلے کے عفرون بن صحر سے خریدا تھا۔
اسی جگہ بی بی سارہ پہلے سے مدفون تھیں۔
ابراہیمؑ اُن کے پہلو میں رکھے گئے، لیکن دراصل ایک ایسا بیج اس خاک میں بو دیا گیا
جس سے نسلوں کے لیے برکت کا درخت اُگنے والا تھا۔
وصال کے بعد، اسحاقؑ چشمۂ لحی روئی کے مقام پر اپنے خیمے کے ساتھ آ گئے۔
یہ وہی جگہ تھی جہاں ربِّ کریم کی نگاہِ رحمت رُکی۔
آسمانی برکتیں اب اُس خیمے پر اُترنے لگیں، اور جو نور خلیلؑ کے دل میں تھا، اب اسحاقؑ کے قلب میں اُتر آیا۔
یہ خیمہ صرف کپڑے کا نہیں تھا، یہ ایک عہد، ایک تسلسل، اور ایک مقدّس امانت کا مرکز تھا
جہاں سے برکتوں کا سفر نسلوں میں جاری ہوا
یہاں تک کہ وہ دن آیا جب نجات کا دروازہ اُس کامل ہستی کے وسیلے سے وا ہوا
جو نور میں لپٹی ہوئی تھی، اور جس کے اندر وہ راز چھپا تھا
اور وہ کامل ہستی کوئی اور نہ تھی بلکہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ تھے۔
نسبت عرفانی
بود در خاک خلیل آن گوہر مقصود پوشیدہ
ز نسل نور بر آید، صبح ہستی را چراغی شد
تشریح
خلیلؑ کی خاک میں وہ گوہر چھپا تھا جسے آسمان نے خود چُنا تھا۔
وہ نسل جو اسحاقؑ سے چلی، وقت کے بطن میں برکت، صداقت اور وفا کے چراغ لے کر چلی
یہاں تک کہ اُس نسل سے وہ صبح نمودار ہوئی
جس نے گناہوں کی رات کا خاتمہ کر دیا۔
نتائج
ابراہیمؑ کی وفات ایک نئے عہد کا آغاز تھی۔
اسحاقؑ صرف بیٹے نہ تھے، بلکہ نورانی وعدے کے وارث بنائے گئے۔
دیگر بیٹے بھی قابلِ عزت تھے، مگر وراثتِ برکت اُس نسل کو دی گئی جس سے دنیا کی روحانی تعمیر ہونا تھی۔
یہ وہی نسل تھی جس میں اطاعت، قربانی، ہدایت، اور آخرکار نجات کی روشنی محفوظ کر دی گئی۔
اختتامیہ
خلیلؑ کے پہلو میں جب وہ نور دفن ہوا تو زمین پر خامشی چھا گئی
لیکن آسمان پر ایک صدا گونجی کہ زمین نے ایک دوست کھویا
مگر انسانیت نے ایک وراثت پائی۔
وہ وراثت، جو نیکیوں کے خیمے میں چھپی تھی، جو دعا کے آنگن سے گزری
اور جو ایک دن اُس دروازے تک لے گئی
جہاں ایک کامل ہستی نے، اپنے آپ کو فنا کر کے زمانے کو بقا کا راستہ دکھایا
وہی کامل، وہی پاکیزہ، وہی روشن، سیدنا حضرت عیسیٰؑ
جن کے وسیلے سے پردے ہٹے، دل دھلے
اور انسان، اپنے ربِّ رحیم کی طرف واپس لوٹنے لگا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔