خیانت کا پردہ، پاکی کا نور، اور شریعت کی تجدید
ہر فتح کے بعد ایک آزمائش چھپی ہوتی ہے، کیونکہ کامیابی کے دروازے کے ساتھ باطن کی طہارت کا امتحان بھی کھلتا ہے۔ جب رب تعالیٰ کسی امت کو نصرت عطا فرماتا ہے، تو اُس نعمت کے ساتھ اس کی نگہبانی کا بوجھ بھی اُس امت پر رکھ دیا جاتا ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں جب بنی اسرائیل نے یریحو کی ناقابلِ تصور فتح حاصل کی، تو اُن کے درمیان ایک ایسی خاموش خیانت نے سر اُبھارا، جس نے رب تعالیٰ کی رضا کو روک دیا۔ یہ خیانت کسی جنگی شکست سے زیادہ مہلک تھی، کیونکہ یہ دل کے فتنے سے جنمی تھی اور ایک شخص کی لغزش نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔
مالِ ممنوع میں خیانت
یریحو کی فتح کے وقت رب تعالیٰ نے سخت حکم دیا تھا کہ اُس شہر کا مال، خزانہ اور ہر قیمتی چیز رب العزت کے لئے مخصوص ہے۔ کسی فرد کو حق حاصل نہیں کہ اُس میں سے کچھ چھپائے۔ مگر عخان نامی ایک شخص نے دل میں طمع چھپائی، ہاتھ بڑھایا، اور رب تعالیٰ کی امانت میں خیانت کی۔ اُس نے چاندی، سونے اور ایک شال کو چرا کر اپنے خیمے میں دفن کر دیا۔
یہ عمل اگرچہ ایک فرد کا تھا، مگر رب العزت کی نگاہ میں یہ قوم کی خیانت ٹھہری۔ چنانچہ نصرت کی ہوا رُک گئی، اور برکت کے بادل ہٹ گئے۔ دلوں پر ایک عجیب سی سردی چھا گئی کیونکہ جب رب پاک راضی نہ ہو، تو فتح بھی شکست بن جاتی ہے۔
عَی کی پہلی شکست
عَی ایک چھوٹا سا شہر تھا، اور بنی اسرائیل کو اس پر مکمل اعتماد تھا کہ وہ با آسانی اسے فتح کر لیں گے۔ مگر جب انہوں نے حملہ کیا، تو وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے۔ سپاہی مارے گئے، دلوں میں خوف اُتر گیا، اور فتح کی خوشبو خون میں بدل گئی۔
حضرت یشوع بن نونؑ سجدے میں گِر گئے، فریاد کی، گریہ کیا، اور عرض گزار ہوئے کہ اے رب! تیری نصرت کہاں گئی؟
رب العالمین کا جواب آیا:
“بنی اسرائیل قوم نے خیانت کی ہے، میرے عہد کو توڑا ہے، اور ممنوع مال کو ہاتھ لگایا ہے۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب حضرت یشوع بن نونؑ نے بنی اسرائیل قوم کو پاکیزگی کے سفر پر روانہ کیا۔ ہر قبیلہ، ہر خاندان، ہر فرد کو رب تعالیٰ کے حضور حاضر کیا گیا، حتیٰ کہ قرعہ سے عخان کا نام ظاہر ہوا۔
اُس نے اعتراف کیا، اور اُس کے ساتھ اُس کا پورا خاندان سزاوار ٹھہرا تاکہ بنی اسرائیل قوم کی تطہیر ہو، اور رب پاک کی حضوری واپس لوٹے۔
رب پاک کی ہدایت، تدبیر، اور نصرت
جب بنی اسرائیل قوم نے اپنے باطن کو پاک کر لیا،
رب تعالیٰ نے دوبارہ حضرت یشوع بن نونؑ کو حکم دیا کہ عَی پر حملہ کیا جائے۔
اس بار تدبیر بھی آسمان سے نازل ہوئی ایک فوج کو شہر کے پیچھے چھپا دیا گیا، اور دوسرا دستہ سامنے سے بڑھا۔
جیسے ہی اہلِ عَی شہر سے باہر نکلے، پیچھے سے فوج نے شہر میں داخل ہو کر اسے آگ لگا دی، اور یوں رب العزت کی مدد سے وہ فتح حاصل ہوئی جو پہلی بار ممکن نہ تھی۔
یہ فتح صرف ایک عسکری چال نہ تھی، بلکہ رب تعالیٰ کی رضا، اطاعت کی روشنی، اور قوم کی سچّی توبہ کا انعام تھی۔
شریعت کی تجدید اور امت کی یاد دہانی
فتح کے بعد حضرت یشوع بن نونؑ نے بنی اسرائیل کو جبلِ عیبال پر جمع کیا۔ وہاں پتھروں پر موسیٰؑ کی لکھی ہوئی شریعت کو کندہ کیا گیا، اور قربان گاہ تعمیر کی گئی تاکہ قوم یاد رکھے کہ فتح، زمین، اور خلافت صرف اُن کے لئے ہے جو شریعت کے تابع ہوں۔
بنی اسرائیل قوم نے رب تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ برکتیں اور وعیدیں سنیں، اور یہ عہد تازہ کیا کہ ان کے دل و عمل ہمیشہ اُس ہدایت کے تابع ہوں گے جو رب پاک نے اپنے بندوں کو عطا کی تھی۔
شیخ سعدیؒ
گناهِ یکی را همه بر سر کشند
چو آتش فتد در سپاه، تر کشند
ترجمہ:
جب ایک شخص خطا کرتا ہے، تو اُس کا وبال پوری قوم پر پڑتا ہے جیسے فوج میں آگ لگے، تو سب جل جاتے ہیں۔
تشریح:
عخان کی خیانت ہمیں بتاتی ہے کہ اجتماعی تقدیر، انفرادی عمل سے بندھی ہوتی ہے۔ امت کا سکون، ہر دل کی صفائی پر موقوف ہے۔ ایک فرد کی گمراہی، رب تعالیٰ کی برکت کو روک دیتی ہے اور توبہ ہی وہ دروازہ ہے جو پھر سے نصرت کی روشنی کو داخل کرتا ہے۔
نتیجہ
اگر امت کسی ایک شخص کے گناہ پر خاموش ہو جائے، تو رب تعالیٰ کی حضوری چھن جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ گناہ کو بے نقاب کرے، توبہ کرے، اور باطن کو پاک کرے، تو رحمت پھر سے برسنے لگتی ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل نے یہ سیکھا کہ کامیابی صرف تلوار سے نہیں، بلکہ توبہ، اطاعت، اور شریعت سے آتی ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں شعور دیتا ہے کہ اجتماعی کامیابی کا راز انفرادی وفاداری میں پنہاں ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ نے قوم کو یہ سکھایا کہ رب تعالیٰ کی رضا جسمانی فتح سے نہیں، بلکہ روحانی عہد سے حاصل ہوتی ہے۔ شریعت کی تجدید، دلوں کی صفائی، اور اجتماعی توبہ یہی وہ ستون ہیں جن پر رب العالمین کی خلافت قائم ہوتی ہے۔ اور وہ قوم جو سچائی، وفاداری، اور ہدایت کی راہ اختیار کرے، وہی رب العزت کی زمین کی وارث بنتی ہے۔
سوال کا جواب دیں