دریائے یردن کا عبور اور یادگار کا قیام
جب رب ذوالجلال کسی قوم کے لیے وعدہ پورا کرنے کا وقت مقرر فرما دے، تو فطرت کی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی نہ پہاڑ، نہ پانی، نہ دیواریں، نہ فاصلے۔ بنی اسرائیل، حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں وعدہ شدہ سرزمین کی دہلیز پر کھڑے تھے، مگر ان کے اور کنعان کے درمیان دریائے یردن بہہ رہا تھا۔ موسمِ کٹائی کا زمانہ تھا، دریا اپنی حدوں سے باہر تھا، اور بنی اسرائیل کے دل انتظار، تذبذب، اور امید کے بیچ لرز رہے تھے۔ مگر رب العزت کی قدرت نے فیصلہ صادر کر دیا کہ اب وقت ہے، وعدہ مٹی پر قدموں میں بدلے، اور اُس کا پہلا منظر ہو، ایمان کا پہلا قدم۔
تابوتِ عہد پانی میں، دریا کا رُک جانا
حضرت یشوع بن نونؑ نے رب تعالیٰ کے حکم کے مطابق تابوتِ عہدکو کاہنوں کے کاندھوں پر رکھوایا، اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ سب سے پہلے دریائے یردن میں قدم رکھیں۔ جب کاہنوں نے قدم بڑھایا اور ان کے پاؤں پانی کو چھونے لگے، تو رب ذوالجلال کی قدرت کا جلوہ ظاہر ہوا۔ دریا کے پانی نے اوپر کی سمت دیوار کی طرح کھڑے ہو کر اطاعت اختیار کی، اور نیچے کی طرف بہتا پانی رُک گیا۔ درمیان کی زمین خشک ہو گئی، اور وہ جگہ جو لمحے پہلے شوریدہ موجوں سے لبریز تھی، اب بنی اسرائیل کے قدموں کے لئے خشکی بن چکی تھی۔ قبیلہ در قبیلہ، وہ اس زمین پر گزرنے لگے، جیسے اُنہوں نے اپنے رب تعالیٰ کی وفا کے پل پر قدم رکھا ہو۔ تابوتِ عہد درمیان میں کھڑا تھا، جیسے رب ذوالجلال خود اُن کے درمیان ہو۔
بارہ پتھروں کی یادگار
رب تعالیٰ نے حضرت یشوع بن نونؑ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک ایک شخص دریا کے بیچ سے ایک ایک پتھر اُٹھائے اور اُسے اپنے ساتھ خشکی تک لے جائے۔ جب سب نے دریا پار کر لیا تو جلجال کے مقام پر اُن بارہ پتھروں کو نصب کیا گیا۔ وہ پتھر فقط پتھر نہ تھے، بلکہ ایک ایسی یادگار بنے جو ایمان، اطاعت، اور رب تعالیٰ کی نصرت کی علامت تھی۔ حضرت یشوعؑ نے دریا کے بیچ میں بھی بارہ پتھر رکھے، جہاں تابوتِ عہد کھڑا رہا تھا، تاکہ جب آنے والی نسلیں سوال کریں کہ یہ پتھر کیوں ہیں، تو بنی اسرائیل کہہ سکیں: یہ اُن قدموں کی علامت ہیں جنہوں نے رب تعالیٰ کے وعدے پر بھروسا کیا، اور جن کے لئے دریا رُک گیا۔
بنی اسرائیل کا مقدس قدم سرزمینِ موعود پر
جب تابوتِ عہد کو اُٹھائے کاہن بھی دریا سے باہر آئے، تو پانی اپنی روانی میں واپس آ گیا، اور دریا پھر سے ویسا ہی موجزن ہو گیا جیسا پہلے تھا۔ لیکن جلجال کی زمین پر بنی اسرائیل کا قدم صرف جغرافیہ پر نہ تھا؛ یہ اُس وعدے پر تھا جس کا آغاز مصر کی غلامی سے ہوا تھا، اور جو اب رب العزت کی نصرت کے ظہور سے حقیقت بن چکا تھا۔ یہ قدم رب تعالیٰ کی شریعت، حضرت یشوعؑ کی قیادت، اور ایمان کی روشنی میں اُٹھایا گیا پہلا قدم تھا۔ جلجال پر بنی اسرائیل کا پہلا پڑاؤ، پہلا شکر، اور پہلا روحانی سجدہ تھا۔
حضرت ناصر خسروؒ
بر آب اگر رویی، ز یقین باید رفت کاین راه را بہ سَر، ز دل و جان باید رفت
ترجمہ:
اگر تو پانی پر بھی چلے، تو یقین کے ساتھ چل؛ اس راہ کا اختتام دل و جان کی کامل تسلیم سے ہوتا ہے۔
تشریح:
دریائے یردن کا رک جانا اور بنی اسرائیل کا اُس پر قدم رکھنا حضرت ناصر خسروؒ کے شعر کی مکمل تصویر ہے۔ رب تعالیٰ کا وعدہ اُس وقت پورا ہوتا ہے جب بندہ یقین، تسلیم اور اطاعت کے ساتھ قدم بڑھاتا ہے چاہے سامنے دریا ہو یا اندھیرا۔
نتائج
- رب تعالیٰ جب وعدہ پورا کرتا ہے، تو فطرت اُس کے حکم کے سامنے جھک جاتی ہے۔
- قیادت اُس وقت مؤثر ہوتی ہے جب وہ رب کی شریعت کے سائے میں ہو۔
- یادگاریں فقط ماضی کی یاد نہیں، بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایمان کا چراغ ہیں۔
- رب پر یقین رکھنے والے پانی پر بھی خشکی پا لیتے ہیں، کیونکہ یقین کی راہ مادی منطق سے نہیں، رب کے وعدے سے جڑی ہوتی ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان کا پہلا قدم ہمیشہ آزمائش کے پانی پر رکھا جاتا ہے، اور جب قوم رب تعالیٰ پر یقین کرتی ہے، تو قدرت اُن کے قدموں کے نیچے اطاعت میں بچھ جاتی ہے۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت، رب کی فتح، اور بنی اسرائیل کی اطاعت نے کیا۔