دعا کا صبر – حضرت اسحاقؑ اور بی بی ربقہؓ کی آزمائش

جب دل کسی پیاری تمنا کے لیے برسوں جھکتا ہے، اور آنکھیں رب کے در پر آنسو بہاتی ہیں، تب صبر ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جس کا صلہ تقدیر کے چپ صفحات پر خاموشی سے لکھا جاتا ہے۔ حضرت اسحاقؑ کی زندگی کا ایک باب ہمیں یہی دکھاتا ہے کہ دعا، اگر دل کی گہرائی سے مانگی جائے، تو وہ نسلوں کی بنیاد بن جاتی ہے۔

یہ تذکرہ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسحاقؑ کا ہے۔ حضرت اسحاقؑ چالیس برس کے تھے جب آپؑ نے بی بی ربقہؓ سے نکاح فرمایا، جو حضرت لابانؓ بن بیتوایل آرامی کی ہمشیرہ تھیں۔ بی بی ربقہؓ نیک سیرت مگر بےاولاد تھیں۔ بیس برس تک ان کے دامن میں کوئی ننھی جان نہ آئی۔ لیکن حضرت اسحاقؑ نے اس محرومی کو خاموشی سے رب کی رضا پر چھوڑ دیا۔

وہ رب کے حضور جھکتے، اپنی بیوی کے لیے دعا کرتے، اور ہر بار امید سے نگاہ اٹھاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رب کی عطا میں دیر ہو سکتی ہے، انکار نہیں۔

بالآخر دعاؤں نے وقت کے پردے کو چاک کیا، اور بی بی ربقہؓ اُمید سے ہو گئیں۔ مگر وہ حمل عام نہ تھا۔ بی بی ربقہؓ نے محسوس کیا کہ ان کے بطن میں دو جانیں کشمکش میں ہیں۔ وہ بےچین ہو گئیں اور رب کی بارگاہ میں عرض کیا: “اے رب، یہ کیسا معاملہ ہے؟ اگر یہ تیری نعمت ہے، تو دل بےقرار کیوں ہے؟”

اللہ تعالیٰ نے ان پر راز کھولا: “تیرے بطن میں دو قوموں کے بانی ہیں۔ وہ دونوں پیدا ہوتے ہی جدا ہوں گے۔ چھوٹا، بڑے پر غالب آئے گا۔”

وقت آیا، اور وہی ہوا جو رب نے فرمایا تھا۔ پہلے بیٹا پیدا ہوا — سرخ اور گھنے بالوں والا۔ اس کا نام رکھا گیا عیسوؓ۔ پھر دوسرا بیٹا پیدا ہوا — وہ اپنے بھائی عیسوؓ کی ایڑی پکڑے ہوا تھا، اس کا نام رکھا گیا یعقوبؑ۔ اس وقت حضرت اسحاقؑ ساٹھ برس کے ہو چکے تھے۔

عیسوؓ نڈر، شکار پسند اور جنگلوں کا رفیق نکلا، جبکہ یعقوبؑ عبادت گزار، خاموش طبع، اور رب سے قریب رہنے والا۔

یہی دو بھائی بعد میں دو عظیم قوموں کی بنیاد بنے۔

یہ سبق یہاں ختم ہوتا ہے، مگر دل کے اندر ایک صدا چھوڑ جاتا ہے: کبھی دعا صرف خواہش نہیں ہوتی، وہ آنے والی تاریخ کی پہلی اینٹ بھی ہو سکتی ہے۔

اور جب کوئی دل یقین کے ساتھ رب کی دہلیز پر جھکتا ہے، تو اُس کی خاموشی بھی قبولیت کی صدا بن جاتی ہے۔ حضرت اسحاقؑ کا سجدہ، بی بی ربقہؓ کی آہ، اور رب کا جواب یہ سب ہمیں سکھاتے ہیں کہ سچّی دعا نہ وقت دیکھتی ہے، نہ حالات، صرف رب کی رحمت کو آواز دیتی ہے۔


شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں

تا نگشاد لب بہ دعا، در نہ گشاد رازِ قضا
چوں گریہ‌اش رسید بہ عرش، خلعتِ رحم شد نوا

ترجمہ:
جب تک اس نے دعا میں لب نہ کھولے، تقدیر کا دروازہ بھی بند رہا،
اور جب اُس کا گریہ عرش تک پہنچا، تو اُس کی نوا رحمت کا لباس بن گئی۔

تشریح

حضرت اسحاقؑ اور بی بی ربقہؓ کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی راہ میں کی جانے والی دعا اور صبر بےکار نہیں جاتا۔ حضرت اسحاقؑ کا بیس سالہ انتظار، اور ہر شب کی دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ بندگی کی سب سے روشن شکل وہ ہوتی ہے جو آزمائش کے پردے میں ہو۔ ربقہؓ کی گھبراہٹ بھی محبت کی علامت تھی، اور رب کا جواب اُس عشق کا انعام۔

یہ واقعہ صرف ایک ولادت کی کہانی نہیں، یہ اُس ایمان کا آئینہ ہے جو آنے والے وقتوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کی نسل سے انبیاء کی روشنی پھوٹی، اور حضرت عیسوؓ سے دنیاوی سلطنتوں کا آغاز ہوا۔


نتائج

سچی دعا وقت تو لیتی ہے، مگر قبول ضرور ہوتی ہے۔
نبی بھی آزمائش سے گزرتے ہیں، مگر وہ صبر اور رضا کے ساتھ اُس کا سامنا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت ہمیشہ پردے میں ہوتی ہے، جو وقت آنے پر ظاہر ہوتی ہے۔
والدین کی دعائیں نسلوں کی تقدیر لکھ سکتی ہیں۔


اختتامیہ

کبھی بظاہر خاموشی، دراصل رب کی طرف سے ایک مقدس تیاری ہوتی ہے۔
حضرت اسحاقؑ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب بندہ دعا کو عبادت بنا لے،
تو رب اُسے معجزہ بنا دیتا ہے۔
بی بی ربقہؓ کا صبر، اور حضرت اسحاقؑ کی التجا،
آج بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے:
دعا مانگنا مت روکو، کیونکہ رب جب دیتا ہے تو صرف عطا نہیں کرتا — وہ تاریخ لکھ دیتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔