دوسرے دن کی تخلیق
خالقِ کائنات، جو ہر چیز کا مبداء اور ہر حکمت کا سرچشمہ ہے، اپنی بے پایاں قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: “پانی کے درمیان خلا پیدا ہو جائے، تاکہ نچلا پانی اور اوپر کا پانی ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔”
اسی لمحے، اللہ کی حکمت کے مطابق کائنات میں ایک عظیم توازن قائم ہوا۔ پانی، جو ایک ہی سطح پر تھا، ربّ العالمین کے حکم سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ان کے درمیان ایک وسعت، ایک خلا پیدا ہوئی، جو نیچے کے پانی کو اوپر کے پانی سے جدا کرتی تھی۔ یہ خالقِ ارض و سما کی حکمت اور اس کے کامل نظام کی ایک اور مثال تھی۔
پھر، خالق نے اس خلا کو، جو اس کے حکم سے پیدا ہوئی تھی، “آسمان” کا نام عطا فرمایا۔ آسمان، جو کہ زمین کے اوپر بلند ہو گیا، اس کے نیچے زندگی کے مظاہر کا ایک نیا باب رقم ہونا تھا۔ اس طرح، دوسرے دن کی تخلیق تمام ہوئی۔
“سعدیؒ فرماتے ہیں:
خداوند، گفت جدا کن ز آب
سماں شود بالاتر، دل بیتاب”
تشریح:
شیخ سعدیؒ اپنے اشعار میں اللہ کی تخلیقی حکمت کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ خدا کے حکم سے پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور آسمان اپنی جگہ پر بلند ہو گیا۔ اس کے اشعار میں تخلیق کے عمل کی عظمت اور خالق کے کامل نظام کا بیان کیا گیا ہے۔
نتائج:
- خالق کی حکمت کی مثال: اللہ نے پانی کے درمیان خلا پیدا کر کے کائنات میں ایک نیا توازن قائم کیا، جو اس کی بے پایاں حکمت کی ایک واضح مثال ہے۔
- توازن کی اہمیت: پانی کے درمیان خلا نے زمین اور آسمان کے درمیان ایک موزوں ترتیب قائم کی، جو زندگی کی ابتدا کے لیے نہایت ضروری تھی۔
- آسمان کی عظمت: آسمان، جو اللہ رب العزت کے حکم سے وجود میں آیا، نہ صرف ایک قدرتی مظہر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طاقت، حکمت، اور نظام کا بھی واضح نشان ہے۔
اختتام:
یہ قصہ خالقِ ارض و سما کی حکمت اور اس کے کامل نظام پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ دوسرے دن کی تخلیق ایک ایسی مثال ہے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اور نظام پر یقین دلاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ رب العزت کی ہر تخلیق ایک مقصد کے تحت ہے، اور ہمیں اس حکمت کو سمجھ کر اپنے خالق کے احکام کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ یوں، ہم نہ صرف دنیاوی معاملات میں کامیاب ہو سکتے ہیں بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔