دولت مند آدمی

حضرت سیدنا عیسٰیؑ نے دولت مند آدمی   اور غریب شخص کے حوالے سے ایک  مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا : ایک امیر کبیر شخص تھا۔ وہ شاندار جامنی چوغہ اور سوت کے مہنگے کپڑے پہنا کرتا اور ہر روز عیش و عشرت میں گزارتا تھا۔ وہاں لعزر نام کا ایک محتاج اُس کے پھاٹک پر پڑا رہتا۔ اِس غریب کا پورا جسم ناسوروں سے بھرا ہؤا تھا۔ جی چاہتا کہ ’مَیں اِس امیر کی میز سے گرے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں سے اپنی بھوک مٹا لوں‘، مگر کہاں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ آوارہ کتے آ کر اُس کے ناسور چاٹتے اور مزید تکلیف پہنچاتے تھے۔ ”پھر ہؤا یوں کہ وہ غریب شخص مر گیا اور اُسے دفنا دیا گیا۔ فرشتے اُسے حضرت ابراہیمؑ کے پاس جنت میں لے گئے۔ بعد ازاں وہ امیر شخص بھی مر گیا اور اُسے دفنا دیا گیا۔ جہانِ مُردگان میں — عالَمِ عذاب میں — وہ امیر شخص کیا دیکھتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ دور سے نظر آ رہے ہیں اور آپؑ کے قریب لعزر بھی بیٹھا ہے۔ اُس امیر شخص نے چلّا کر کہا: ’بابا ابراہیمؑ! مجھ پر رحم فرما کر لعزر کو یہاں بھیج دیجئے کہ وہ اپنی انگلی کی پور پانی میں بھگو کر میری جلتی زبان ٹھنڈی کر دے کیوں کہ مَیں اِس آگ کے عذاب میں مبتلا ہوں۔‘ ”حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: ’بیٹے! یاد کرو کہ تم نے اپنی زندگی میں مزے کر لئے اور لعزر کا برا حال رہا۔ مگر اب وہ یہاں آرام میں ہے اور تم عذاب میں۔ ویسے بھی ہمارے اور تمھارے درمیان ایک بڑی خندق حائل ہے۔ کوئی چاہے بھی تو یہاں سے وہاں نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہاں سے کوئی پار کر کے یہاں آ سکتا ہے۔‘ ”اُس شخص نے کہا: ’بابا! مَیں آپؑ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپؑ لعزرکو میرے خاندان والوں کے پاس بھیج دیں! وہ میرے پانچ بھائیوں کو متنبہ کر دے کہ وہ میرے نقشِ قدم پر نہ چلیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آ جائیں۔‘ ”حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: ’اُن کے پاس توراۃِ موسوی اور صحائفِ انبیاءؑ تو ہیں۔ اُن پر عمل کریں نا!‘ وہ کہنے لگا: ’بابا ابراہیمؑ! اگر مُردوں میں سے کوئی زندہ ہو کر اُن کے پاس چلا جائے، تو وہ توبہ کر لیں‌گے۔‘ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ’جب وہ انبیاءؑ کی یہاں تک کہ حضرت موسٰیؑ کی بھی نہیں مانتے، تو اگر کوئی شخص مُردوں میں سے زندہ بھی ہو جائے اور اُن کے پاس چلا جائے، تو بھی وہ اُس سے قائل نہیں ہوں‌ گے۔‘“