رب کا وعدہ، وصالِ کلیمؑ، اور امانتِ خلافت کا آغاز

جب کسی نبی کا وصال ہوتا ہے، تو زمین کی فضا پر سکوت طاری ہو جاتا ہے، گویا آسمانی چراغ بجھ گیا ہو۔ مگر وہ ربِ ذوالجلال، جو ہر آن زندہ، قائم اور حاضر ہے، اپنی حکمت سے کسی اور بندۂ مؤمن کے دل میں ہدایت کی قندیل روشن فرما دیتا ہے تاکہ اُمت راہِ حق سے محروم نہ ہو۔ حضرت موسیٰؑ، وہ کلیمِ رب، جن کے دستِ مبارک میں عصا تھا، اور سینہ نورِ وحی سے منور؛ وہ جو کوہِ طور پر ربِ علیم سے ہمکلام ہوئے؛ وہ جو بنی اسرائیل کو ظلم و غلامی کے اندھیروں سے نکال کر وعدۂ الٰہی کی دہلیز تک لے آئے، اب کوہِ نبو پر وصال پا چکے تھے۔
مگر ربِ کریم نے بنی اسرائیل کو بے راہ نہ ہونے دیا بلکہ حضرت یشوع بن نونؑ کو خلافت کا امین مقرر فرمایا، جن کا دل طہارت، وفاداری، اور شریعتِ الٰہیہ کے نور سے لبریز تھا۔


ندائے ربِ جلیل

رب تعالیٰ نے حضرت یشوع بن نونؑ سے ارشاد فرمایا:
“میرا بندہ موسیٰ وفات پا چکا ہے؛ اب تُو اُٹھ، اور میری اس قومِ بنی اسرائیل کو اُس سرزمین میں لے جا، جس کا وعدہ میں نے اُن کے آباؤ اجداد سے فرمایا تھا۔”
یہ رب ذوالجلال کا کلام محض ایک اطلاع نہ تھا، بلکہ رب العزت کی طرف سے خلافتِ ارضی کی امانت، وعدہِ الٰہی کی تجدید، اور قیادت کی روحانی تقدیس تھی۔
قیادت وہ امانت ہے جسے صرف وہی سینہ اٹھا سکتا ہے، جو شریعتِ ربانی کا وفادار، دل سے مطمئن، اور رب تعالیٰ پر کامل توکل رکھنے والا ہو۔


وصیتِ شریعت
ربِ ذوالجلال نے حضرت یشوع بن نونؑ کو جو وصیت عطا فرمائی، وہ ہر دور کے رہبروں، علما، اور کارواں کے سالاروں کے لیے مشعلِ ہدایت ہے:
“یہ شریعت کی کتاب تیرے لبوں سے جدا نہ ہو، دن و رات اس میں تدبر کرتا رہ، تاکہ جو کچھ اس میں مرقوم ہے اُس پر عمل کرے؛ تب ہی تُو فلاح پائے گا۔”
قیادت کا راز قوت و ساز و سامان میں نہیں، بلکہ شریعتِ الٰہی کی پیروی میں ہے؛ اور جو بندہ ربِ قدوس کی شریعت سے بندھ جائے، اُسے تلوار کی حاجت نہیں رہتی، کیونکہ رب العالمین خود اُس کا ساتھی اور مددگار ہو جاتا ہے۔


ندائے قیادت
رب تعالیٰ کا فرمان سننے کے بعد حضرت یشوع بن نونؑ نے بنی اسرائیل کو ندا دی اور فرمایا:
“تین دن کی تیاری اختیار کرو، کیونکہ ہم دریائے یردن عبور کر کے اُس سرزمین میں قدم رکھیں گے جس کا وعدہ ہمارے رب تعالیٰ نے ہمارے آباء و اجداد سے فرمایا تھا۔”
حضرت یشوع بن نونؑ کے اس حکم میں محض ظاہری فتح کی بشارت نہ تھی، بلکہ رب العالمین کے وعدے پر یقینِ کامل، اطاعت کی روشنی، اور قربانی کی آمادگی کی صدا تھی۔
جب بنی اسرائیل نے حضرت یشوع بن نونؑ کے لہجے میں ربِ ذوالجلال کا نور، وقار اور صداقت محسوس کی، تو انہوں نے عرض کیا:
“جیسے ہم نے حضرت موسیٰؑ کی اطاعت کی، ویسے ہی ہم آپ کی قیادت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں بشرطیکہ رب تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔”


حضرت سنائیؒ

خلیفہ‌وار بر تختِ رضا بنشین، مپرس از خلق
که هر کس با خدا باشد، خلافت خود بہ دست آرد
ترجمہ:
رضا کے تخت پر خلافت کے ساتھ بیٹھ، لوگوں کی پروا نہ کر؛ کیونکہ جو خدا سے جُڑ جاتا ہے، خلافت خود اُس کے پاس آ جاتی ہے۔
تشریح:
حضرت یشوع بن نونؑ نے قیادت کی تلاش نہیں کی، بلکہ رب العالمین نے اُن کے اخلاص، توکل، اور شریعت سے محبت کو دیکھ کر اُنہیں خلافت عطا فرمائی، اور یہ خلافت تاج نہیں، امانت تھی۔


نتائج

حضرت موسیٰؑ کے وصال کے بعد رب تعالیٰ نے امت کو تنہا نہ چھوڑا، بلکہ حضرت یشوع بن نونؑ کو خلافت سونپی، جن کی قیادت شریعت کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ رب العزت نے اُن سے جو وعدہ فرمایا، وہ فقط فتوحات کا اعلان نہ تھا بلکہ اُس میں ہدایت، حضوری، اور رب تعالیٰ کی نصرت کا تسلسل بھی شامل تھا۔
یہاں قیادت کا اصل جوہر واضح ہوتا ہے کہ وہ رب پاک پر توکل، شریعت سے وابستگی، اور دل کی طہارت میں پوشیدہ ہے۔ قوم بنی اسرائیل نے حضرت یشوع بن نونؑ کی اطاعت کو مشروط کیا، بشرطیکہ رب تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو۔ گویا وفاداری کا اصل مرکز کسی فرد کی شخصیت نہیں، بلکہ رب العالمین کا قرب اور اُس کی رضا ہے۔


اختتامیہ

یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ جب کوئی نبی رخصت ہوتا ہے، تو رب العزت کی شریعت باقی رہتی ہے، اور جو دل اُس شریعت سے وابستہ ہو، وہی خلافت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت فقط ایک نئے دور کا آغاز نہ تھی، بلکہ یہ اس اعلان کی صدا تھی کہ زمین کے وارث وہی ہوں گے جو وعدے پر قائم، شریعت پر ثابت قدم، اور رب ذوالجلال کی حضوری میں سجدہ ریز رہیں۔
قیادت تاج نہیں، بلکہ ایک ربانی امانت ہے اور حضرت یشوع بن نونؑ اُس امانت کے پہلے کامل نگہبان بنے۔