رب کا وعدہ دائمی بادشاہی کی بشارت
جب کوئی رحیم و حکیم کے لئے کوئی عظیم کارِ خیر انجام دینے کی تمنّا رکھے، تب وہ رب تعالیٰ اُس نیت کو بھی قبول فرما لیتا ہے، چاہے وہ عمل تک نہ پہنچے، کیونکہ وہی ہے جو دلوں کے رازوں کا جاننے والا، نیتوں کے وزن کو پہچاننے والا، اور ارادوں کی صداقت پر گواہ ہے۔ حضرت داؤدؑ کے دل میں جب مسکنِ الٰہی بنانے کا ارادہ پیدا ہوا، تو وہ محض تعمیر کا منصوبہ نہیں تھا، بلکہ عشقِ بندگی کا وہ اظہار تھا جو ظاہر سے زیادہ باطن میں گونجتا ہے کہ ایک ایسی تمنا جو دیواروں میں نہیں، دل کی گہرائیوں میں بسی ہوئی تھی۔
نیتِ صالحہ اور وحیِ الٰہی
جب حضرت داؤدؑ کو اللہ ذوالمنن نے اُن کے تمام دشمنوں سے نجات اور امن عطا فرمایا، اور اُنہیں سلطنت میں سکون و تمکنت نصیب ہوئی، تو اُن کے دل میں ایک نورانی تمنا نے جنم لیا وہ تمنا جو تخت و تاج کی زینت سے نہیں، بلکہ رب تعالیٰ کی حضوری کی طلب سے اُبھری تھی۔ وہ داؤدؑ، جو سنگ و مرمر کے محل میں جلوہ فرما تھے، اُنہوں نے حضرت ناتنؑ نبی سے نہایت ادب و اخلاص کے ساتھ عرض کیا: “دیکھ، میں سنگی محل میں قیام پذیر ہوں، اور میرے ربّ جلیل القدر کا تابوت اب تک پردۂ خیمہ کے نیچے ہے اس لئے میں ربِ جلیل کی حضوری جت لئے مسکنِ الہٰی بنانا چاہتا ہوں۔
یہ محض ایک عمارت کی تعمیر کا خیال نہ تھا، بلکہ وہ نیت تھی جو ایک عبد کے دل سے اُس کے معبود کی طرف اٹھنے والی سچی طلب تھی وہ طلب جو صرف سجدے کی جگہ نہ مانگتی تھی، بلکہ اُس حضوری کو مقام دینا چاہتی تھی جو دلوں میں اترتی ہے۔ حضرت ناتنؑ نبی جو حضرت داؤدؑ کے اخلاص کے شاہد تھے، اُنہوں نے فرمایا: “جو کچھ تیرے دل میں ہے، وہ کر گزر، بےشک اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ ہے۔
وحیِ ربانی وہ گھر جو اللہ بنائے گا
رات کی خلوت نے شہر پر سکوت کی چادر تان لی، تب وہ ربّ جلیل، جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور نیتوں کی حقیقت کا جاننے والا ہے،
حضرت نبی ناتنؑ پر وحی خداوندی نازل ہوئی اور رب العزت نے فرمایا!
“اے میرے نبی، اُٹھ اور میرے بندہ داؤدؑ سے کہہ: کیا تُو وہی ہے جس نے میرے لئے گھر بنانے کا ارادہ کیا کہ میں اس میں سکونت اختیار کروں؟ کیا میں نے کبھی بنی اسرائیل میں کسی قبیلے، کسی قاضی، کسی قوم سے یہ فرمایا کہ میرے لئے گھر دے؟”
“کیا تُو بھول گیا کہ میں نے تجھے بھیڑوں کے باڑے سے چن کر اپنی بنی اسرائیل قوم کا چرواہا بنایا؟ کیا میں تیرے ساتھ نہ تھا جہاں کہیں تُو گیا، کیا میں نے تیرے دشمنوں کو تیرے سامنے خاک میں نہ ملا دیا؟ کیا میں نے تیرا نام زمین کے بزرگوں کی صف میں نہ رکھا؟ اور کیا میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے ایک ایسی جائے قرار نہ بنائی جہاں وہ بےخوف ہو کر بسے، اور ظالم اُن پر دوبارہ ہاتھ نہ ڈالے جیسے پہلے ڈالتے تھے؟”
اور یہ کلامِ ربّانی فقط سوال نہیں تھا، بلکہ ایک نورانی تنبیہ، ایک آسمانی تذکیر، اور ایک وعدۂ عظیم کا آغاز تھا کہ بندہ کچھ چاہے، لیکن جو رب تعالیٰ چاہے، وہی سب سے بہتر ہوتا ہے۔ اس وحی میں صرف انکار نہ تھا، بلکہ ربّ جلیل کی طرف سے اپنے محبوب بندے کے لئے وہ بشارت تھی جو الفاظ سے نہیں، عہد سے لکھی جاتی ہے۔
رب تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نے مزید فرمایا!
میرے بندہ داؤدؑ سے کہہ: اب، میں ہی تیرے لئے ایک گھر بناؤں گا۔”
یعنی وہ گھر جس کی بنیاد اینٹوں پر نہیں، بلکہ وعدۂ ربّانی پر ہو گی؛ وہ گھر جس کی دیواریں وقت کی نہیں، وفا کی ہوں گی؛ وہ گھر جو نسلوں کی حکمرانی کا نشان، اور عبد کی نیت کا مقامِ قبول بنے گا۔ حضرت داؤدؑ کی نیت اگرچہ تعمیر کی تھی، مگر ربّ نے اُس نیت کو اپنی حکمت سے بلند تر انجام کے لیے محفوظ فرما لیا۔
نسلوں کا وعدہ اور صدیوں کی روشنی
جب بندہ اپنی نیت میں اخلاص، اپنی خواہش میں بندگی، اور اپنے ارادے میں ربّ کی رضا کو شامل کر لیتا ہے، تو وہ ربّ الکریم جواب میں اُسے محض اپنی قربت سے نہیں نوازتا، بلکہ اُس کے بعد آنے والوں کو بھی اپنے وعدے کی پناہ میں لے لیتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کی تمنا ایک مسکنِ الٰہی کی تعمیر تھی، لیکن ربّ سبحانہٗ نے اُس کے جواب میں جو کلام اپنے بندہ حضرت ناتنؑ نبی کے ذریعے عطا فرمایا، وہ تمنا سے کہیں بڑھ کر، ایک دائمی بشارت کی صورت میں ظاہر ہوا۔
پھر حضرت نبی ناتنؑ پر وحی خداوندی نازل ہوئی اور رب تعالیٰ نے فرمایا!
میرے بندہ داؤدؑ سے کہہ: پس جب تیرے ایّام پورے ہو جائیں گے، اور تُو اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ آرام پائے گا، تو ہم تیرے بعد تیری پشت سے ایک جانشین اٹھائیں گے، جو تیرا بیٹا ہو گا، وہی ہمارے نام کے لئے مسکن تعمیر کرے گا، اور ہم اس کی سلطنت کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھیں گے۔”
میں اس کا ولی و سرپرست ہوں گا، اور وہ میرے قرب و محبت کا نشان کہلائے گا؛ اور اگر وہ راہِ ہدایت سے ہٹے گا، تو ہم اُسے انسانوں کی سختی سے آزمائیں گے، اور بنی آدم کے ہاتھوں سے تادیب دیں گے؛ مگر ہماری رحمت اُس سے منقطع نہ ہو گی، جیسا ہم نے ساؤل سے اپنی عنایت کو واپس لیا، جسے ہم نے تیرے حضور سے ہٹا دیا تھا۔”
یہ وہ کلامِ ربّانی تھا جو نہ ماضی کا اسیر تھا، نہ حال کا پابند، بلکہ وہ عہد تھا جو آئندہ صدیوں کے دلوں میں اُترنے والی روشنی بن گیا۔
ربِ ذوالجلال نے وحی کے ذریعے مزید فرمایا! میرے بندہ داؤدؑ سے کہہ: تیرا گھر، تیری سلطنت، اور تیرا تخت ہمارے حضور ابد تک ثابت و برقرار رہیں گے، اور جو کلام ہم نے فرمایا، وہ حق کے ساتھ قائم رہے گا، اور وفا کے نور سے پورا کیا جائے گا، کیونکہ ہمارا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا، اور ہمارا قول ہمیشہ پورا ہوتا ہے۔”
یہ کوئی وقتی تخت کا وعدہ نہ تھا، بلکہ وہ وعدہ تھا جو نسلوں کو سربلند کرتا ہے، جس کی روشنی سے زمانے منور ہوتے ہیں، اور جس کی بنیاد ایک ایسے آنے والے فرزند پر رکھی گئی جو صلح، عدل، اور رحم کا علمبردار ہو گا وہی جو دلوں کی سلطنت کا بادشاہ ہو گا، اور جس کا جلال صرف تاج میں نہیں، بلکہ صداقت، وفا، اور قربانی کی روح میں جلوہ گر ہو گا۔
دعا کا معراج، بندہ اور ربّ کا مکالمہ
حضرت داؤدؑ نے جب ربّ ذوالجلال کا وہ کلام حضرت ناتنؑ نبی کے ذریعے سنا، جو اُن کے لئے خلافتِ دائمی، نسلِ مبارکہ، اور سلطنتِ ابدی کا وعدہ لے کر نازل ہوا تھا، تو اُن کا دل فخر کی بلندپایہ چوٹیوں پر چڑھنے کے بجائے، خشیتِ الٰہی کے سجدے میں پگھل گیا۔
وہ جو سلطنت کے تخت پر متمکن تھے، اُس لمحہ تخت سے اُٹھے اور بارگاہِ ربّانی میں سرِ نیاز جھکا دیا جہاں نہ جاہ و حشمت تھی، نہ دنیاوی وجاہت، بلکہ فقط حضورِ الٰہی کی حضوری، سجدۂ شکر کی سچائی، اور ندامت میں ڈوبا ہوا قلبِ عبد تھا۔
حضرت داؤدؑ کا یہ محض بیٹھنا نہ تھا، بلکہ ایک عبد کا جھکنا، ایک سرفراز بادشاہ کا سجدۂ تسلیم، اور ایک مقربِ بندہ کا بارگاہِ الٰہیہ میں فنا ہونا تھا۔ اُس نشست میں نہ زبان بلند تھی، نہ دل مغروری فقط خاموشی کی حیات بخش گونج، عاجزی کی نورانی روشنی، اور آنکھوں میں شکر کے نور کا جلتا ہوا چراغ تھا۔
حضرت داؤدؑ نے ربِ جلیل کی بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا:
“اے میرے ربّ و مولیٰ! میں کیا ہوں، اور میرا گھر کیا ہے، کہ تُو نے مجھے یہاں تک پہنچایا؟”
“اے ربّ کریم! یہ بھی تیرے کرم سے کم نہ تھا کہ تُو نے اپنے بندے کے گھرانے کے متعلق بعید زمانوں تک کے وعدے فرمائے؛ اور یہ اس بندے کے لئے بصیرت ہے جو تیرا مخلص بندہ ہے۔”
“اے میرے ربّ! تُو ہی بزرگ و برتر ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، جیسا کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا، اور دل کی گہرائیوں سے یقین کیا۔”
اے ربّ کریم! زمین کی تمام قوموں میں کون تیری قوم بنی اسرائیل کے مانند ہے، جسے تُو نے خود آ کر فدیہ دے کر اپنا بنایا، تاکہ تیرے نام کا جلال ظاہر ہو، اور تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر اپنی قدرت کے نشانات ظاہر فرمائے؟”
پس اے ربّ الافواج! یہ جو کلام تُو نے اپنے بندے اور اُس کے گھر کے بارے میں فرمایا، وہ ابد تک قائم رہے، اور تُو ویسا ہی کر جیسا تُو نے فرمایا۔”
تیرا نام ہمیشہ کے لئے بلند و برتر رہے، تاکہ تمام خلقت گواہی دے:
اے ربّ الافواج، بنی اسرائیل کا معبود حقیقی، اپنی قوم بنی اسرائیل پر غالب و مہربان ہے؛ اور تیرے بندے داؤدؑ کا گھر تیرے حضور ثابت و دائم رہے۔”
اے میرے مالک تُو ہی ہے، اے میرے ربّ! جس نے اپنے بندے پر یہ کلام ظاہر فرمایا؛ اسی وجہ سے تیرا بندہ یہ دعا کرنے کی جرأت پاتا ہے۔”
اے ربّ ذوالجلال! تیرا کلام سراپا حق ہے، اور جو وعدہ تُو نے فرمایا، وہ سراسر خیر و فضل ہے۔”
“پس اپنے کرمِ خاص سے برکت نازل فرما، تاکہ تیرے بندے کا گھر تیرے حضور ہمیشہ کے لئے باقی و برقرار رہے؛ کیونکہ تُو ہی نے فرمایا، اور جس پر تیرے کلام کی برکت اُترے، وہ ابد تک مبارک و سرفراز رہتا ہے۔”
یہی تھا حضرت داؤدؑ کا سجدۂ شکر، سجدۂ فنا، سجدۂ محبت، سجدۂ بندگی۔
وہ سجدہ جس میں پیشانی مٹی کو چھوتی ہے، مگر روح عرشِ الٰہی کے حضور پرواز کرتی ہے۔ اور یہی ہے وہ مقام جہاں دعا، بندگی بن جاتی ہے؛ بندگی، عبادت بن جاتی ہے؛ اور عبادت، قربِ الٰہی کی معراج بن جاتی ہے۔
نورالدین عبدالصمد اصفہانیؒ،
سجودِ خالصاں را در حریمِ دوست دیدم
به یک اشکِ پشیمانی، درِ رحمت گشودم
ترجمہ:
میں نے خالص بندوں کا سجدہ دوست کے دربار میں دیکھا،
تو ایک ہی ندامت کے آنسو سے، میں نے رحمت کا دروازہ کھول دیا۔
تشریح
یہ شعر اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ربّ کریم بندے کے سجدے کا محتاج نہیں، بلکہ وہ اُس دل کی تلاش میں ہے جس میں خلوص ہو، آنکھ میں خشیت ہو، اور نیت میں توبہ کی نمی ہو۔ حضرت داؤدؑ نے جب ربّ تعالیٰ کے وعدے سن کر سجدہ اختیار کیا، تو اُن کے دل میں نہ کوئی غرور تھا، نہ کوئی دعویٰ صرف شکر، بندگی اور عاجزی تھی
نتائج:
- نیتِ صالحہ، اگرچہ عمل نہ بنے، ربّ کے نزدیک محبوب ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت داؤدؑ کی نیت کو رب تعالیٰ نے دائمی بادشاہی کے وعدے سے نوازا۔
- رب تعالیٰ کی وحی بندے کو اُس کی حدود بھی یاد دلاتی ہے اور اُس کی عظمت بھی، تاکہ بندہ عاجزی میں رہے اور ربّ کی عطا پر فخر کے بجائے شکر کرے۔
- سلطنت و تخت وہی باقی رہتے ہیں جو ربِ کریم کے وعدے سے جُڑے ہوں حضرت داؤدؑ کو دی گئی بادشاہی کا تسلسل صدیوں کی روشنی بنا۔
- دعا صرف حاجات کا مجموعہ نہیں، بلکہ شکر، تسلیم اور بندگی کا عروج ہے؛ حضرت داؤدؑ کا سجدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عبدیت کا اصل مقام دل کی حضوری ہے۔
- رب تعالیٰ کا وعدہ جب آسمان سے اترتا ہے، تو وہ نسلوں کے لیے روشنی، زمین کے لیے امن، اور دلوں کے لیے تسکین بن جاتا ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ سچی بندگی تخت سے نہیں، سجدے سے پہچانی جاتی ہے۔ حضرت داؤدؑ، جو بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی، جب رب تعالیٰ کا کلام سنتے ہیں تو وہ نہ تاج کو دیکھتے ہیں، نہ سلطنت کو گنتے ہیں وہ صرف سجدہ کرتے ہیں، اور عرض کرتے ہیں: “اے میرے ربّ، میں کون ہوں؟”
یہی ہے بندگی کا جوہر کہ جو کچھ بھی ہو، اُسے رب تعالیٰ کی عطا سمجھ کر شکر کے آنسو بہا دیے جائیں۔ حضرت داؤدؑ کی نیت، اُن کا سجدہ، اُن کی دعا، اور ربّ کا وعدہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اخلاص کے لمحے، نسلوں کے لیے تقدیر بن جاتے ہیں، اور جو کچھ ربّ کہے، وہی ہو کر رہتا ہے سچائی اور وفا کے ساتھ۔