روزے کے متعلق تعلیم

روزہ صرف بھوک، پیاس، اور خواہشات کو روکنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک باطنی سیرِ عشق ہے، ایک روحانی مجاہدہ جو بندے کو نفس کی زنجیروں سے آزاد کر کے قربِ محبوبِ حقیقی کی جانب لے جاتا ہے۔ یہ عبادت سراپا ادب، انکساری، اور خاموش بندگی کی وہ تعلیم ہے جو نہ صرف ظاہری نظم کو سنوارتا ہے بلکہ باطن کے آئینے کو بھی صیقل کر دیتا ہے۔ مگر جب اس عبادت میں نمود و نمائش کی آمیزش ہو جائے، تو وہ عبادت اجزائے تقرب کی بجائے وسیلۂ غرور بن جاتی ہے۔

روزے کی باطنی تہذیب

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
جب تم روزہ رکھو، تو منافقین کی مانند نہ بنو، جو رنج و افسردگی کی صورت بنا کر لوگوں کو اپنے روزہ ظاہر ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ وہ تو اپنی پیشانیوں پر بھوک کی تحریر لکھوا لیتے ہیں تاکہ مخلوق اُن کی پرہیزگاری پر اُن کی تعریف کریں۔
یقین جانو! وہ اپنی مزدوری اسی دنیا میں وصول کر چکے۔

مگر تم، جب روزہ رکھو، تو اپنے چہرے کو تازہ کرو، اپنے بالوں میں کنگھی کرو، ہاتھوں اور پیروں کو دھو کر خوشبو سے معطر کرو تاکہ تمہاری تاکہ تمہارا روزہ صرف اُس ربِ کریم کے علم میں ہو جو غیب کا مالک ہے۔ اور وہ تمہارے چھپے ہوئے روزے کا اجر، پردۂ غیب سے تم پر نازل فرمائے گا۔


شیخ فرید الدین عطارؒ:
روزه آن نیست که از طعام شوی باز،
روزه آن است که در باطن شوی راز

ترجمہ:
روزہ صرف کھانے سے رُک جانا نہیں،
بلکہ اصل روزہ یہ ہے کہ انسان اپنے باطن کو رازدارِ الٰہی بنا لے۔

تشریح:

شیخ فرید الدین عطارؒ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ روزے کی اصل حقیقت صرف کھانے پینے سے رک جانا نہیں، بلکہ دل کی پاکیزگی، باطن کی خلوت، اور ربّ کے رازوں سے قرب حاصل کرنا ہے۔ یعنی جسم کا فاقہ اگر دل کی بیداری نہ لائے، تو وہ محض ظاہر رہ جاتا ہے۔
یہی مفہوم سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنی تعلیم میں بیان فرمایا، جب آپؑ نے لوگوں کو تاکید کی کہ روزے کو نمائش نہ بناؤ، بلکہ خوشی اور وقار سے روزہ رکھو، تاکہ تمہارا ربّ، جو چھپی چیزوں کا جاننے والا ہے، تمہیں خفیہ طور پر اجر عطا کرے۔


نتائج:

  1. روزہ ایک روحانی ریاضت ہے، جو بندے کو تقویٰ، صبر، اور باطنی سکون عطا کرتا ہے۔
  2. ریاکاری عبادت کا نور چھین لیتی ہے، اس لیے نیت کا اخلاص شرطِ اوّل ہے۔
  3. مخلوق سے چھپائی گئی عبادت، خالق کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
  4. ظاہر میں خوش اخلاقی اور باطن میں خشوع یہی روزے کی اصل شان ہے۔
  5. سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے روح پرور تعلیم دی کہ روزہ محض عمل نہیں، بلکہ اخلاقِ ربّانی کا نمونہ ہو۔
  6. وہ روزہ دار جو اپنی بھوک کو مسکراہٹ میں چھپا لے، وہ دراصل عرش کے نیچے فرشتوں کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔

اختتامیہ

روزہ ایک ایسا مخفی چراغ ہے جو اندر جلتا ہے، اور باہر روشنی نہیں دکھاتا مگر وہ روشنی روح کو اجالا دیتی ہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہی تعلیم ہمیں سکھاتی ہے کہ خاموشی کی عبادت، صداقت کی سانس، اور رُوح کی حضوری ہی اصل بندگی ہے۔ جب بندہ دکھاوے کو ترک کر کے، ربّ کے لیے دل کا دروازہ بند کر کے عبادت کرے، تو وہی دروازہ الہیٰ رضا کا باب بن جاتا ہے۔