رومی سپاہی کے نوکر کا شفا پانا

سیدنا حضرت عیسٰیؑ تعلیم دینے کے بعد کَفرؔنحُوم تشریف لے گئے۔ وہاں ایک رومی صوبےدار کا بہت پیارا نوکر بیماری سے مرنے کے قریب تھا۔ اُس صوبے دار کو سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے آنے کی خبر ہوئی، تو اُس نے کچھ شیوخِ قومِ بنی اسرائیل آپؑ کے پاس بھیجے کہ ”تم سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے حضور عرض کرو کہ ’آپؑ تشریف لا کر ہمارے آقا کے نوکر کو شفا دیں!‘“ وہ بزرگ آپؑ کے حضور حاضر ہو کر مِنّت سماجت کر کے کہنے لگے: ”یہ شخص اِس بات کا مستحق ہے کہ اُس کی درخواست مان لی جائے۔ یہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے۔ ہمارا عبادت خانہ بھی اِسی نے تعمیر کروایا ہے۔“ سیدنا حضرت عیسٰیؑ اُن کے ساتھ تشریف لے گئے۔ ابھی آپؑ منزل کے قریب ہی تھے کہ اُس صوبےدار نے اپنے کچھ اَور ساتھیوں کو پیغام دے کر حضرت عیسٰیؑ کی طرف بھیجا کہ ”حضور! زحمت مت کیجئے! مَیں اِس قابل کہاں کہ آپؑ میرے غریب‌ خانے پر تشریف لائیں؟ اِسی وجہ سے مَیں نے اپنے آپ کو اِس قابل نہیں سمجھا کہ آپؑ کے پاس آتا۔ بس آپؑ یہیں سے حکم صادر فرما دیجئے! میرا نوکر وہیں پر ہی شفایاب ہو جائےگا۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ مَیں بھی ایک بڑے افسر کے ماتحت ہوں اور مجھے اُس کی ماننی پڑتی ہے۔ خود میرے ماتحت کوئی سَو ایک فوجی ہیں۔ جسے بھی کہوں: ’جاؤ!‘، اُسے جانا پڑتا ہے اور جس سے کہوں: ’آؤ!‘، اُسے آنا پڑتا ہے۔ اگر اپنے نوکر سے کہوں کہ ’وہ کام کرنا ہے‘، تو اُسے وہ ضرور کرنا پڑتا ہے۔“ حضرت عیسٰیؑ اُس کے اعتماد پر متعجب ہوئے اور پیچھے آنے والے ہجوم سے پلٹ کر ارشاد کرنے لگے: ”مَیں تم سے کہتا ہوں کہ ایسا پکا ایمان والا مَیں نے اپنی قومِ بنی اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔“ وہ قاصد جو سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے پاس بھیجے گئے تھے، لوٹ کر آئے، تو اُس مریض کو تندرست پایا۔ یوں سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے اُس رومی سپاہی کے نوکر کو شفائے کاملہ بخشی۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں