زمین

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا:  ایک تھا کاشت‌کار وہ بیج کاشت کرنے گھر سے نکلا۔ کاشت کرتے وقت کچھ بیج کھیت کی پگ‌ڈنڈی پر جا پڑے۔ اُنہیں پرندے آ کر چُگ گئے۔ کچھ بیج زمین کی پتھریلی جگہ میں جا گرے جہاں مٹی کم تھی۔ مٹی گہری نہ ہونے کے سبب وہ بیج فوری طور پر اُگ تو گئے، مگر دھوپ پڑتے ہی وہ پودے جل گئے کیونکہ جڑیں جو گہری نہیں تھیں۔ کچھ بیج خاردار جھاڑیوں میں جا گرے۔ خاردار جھاڑیاں جو بڑھِیں، تو اُن کا گلا دبا دیا۔ کچھ بیج زرخیز زمین میں جا گرے۔ خوب ہی فصل اُگی۔ کہِیں ایک دانے کے تیس، کہِیں ساٹھ، کہِیں سَو۔ حق سننے کی توفیق ملی ہے، تو سنو۔!

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے اس مثال کا مطلب پیش کرتے ہوئے فرمایا: ”اب تم غور سے سنو! کہ مختلف قِسم کی زمینوں کی مثالوں  کا مطلب کیا ہے۔ پگ‌ڈنڈی والی زمین سے مراد اُن لوگوں کے دل ہیں جو سلطنتِ الٰہیہ کے بارے میں پیغام سُن تو لیتے ہیں، مگر اُس پہ غور و خوض نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے دلوں سے ابلیسِ وہ پیغام چَر چُگ لیتا ہے۔ اِسی طرح پتھریلی زمین سے مراد اُن لوگوں کے دل ہیں جو پیغامِ الٰہی کو سننے کے بعد فورًا خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، مگر وہ اُن کے دلوں میں گھر نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگوں کو جب کلامِ الٰہی کے باعث کسی مصیبت یا آزمائش سے پالا پڑتا ہے، تو فورًا بھٹک جاتے ہیں۔ خاردار جھاڑیوں سے دبی ہوئی زمین سے مراد اُن لوگوں کے دل ہیں جو کلامِ الٰہی سُن کر مان تو لیتے ہیں، مگر کچھ عرصے بعد دنیاوی فکر اور پَیسے کا خوب‌ صورت فریب اُن پر غالب آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی زندگی میں کلامِ الٰہی بےثمر رہتا ہے۔ زرخیز زمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کلامِ الٰہی کو سنتے اور اُس پر خوب غور و خوض کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ باثمر ثابت ہوتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں تیس فی صد، کسی کی ساٹھ فی صد اور کسی کی سَو فی صد۔