موعودِ مسیحؑ کی زیارت

بعض ستارے آسمان پر صرف روشنی کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ وہ آسمانی وعدوں کی نشانی بن کر ظہور کرتے ہیں۔ ان کی چمک دراصل دلوں کو جگانے آتی ہے۔ جب اہلِ علم نے ایک نئے ستارے کو آسمان پر طلوع ہوتے دیکھا، تو وہ جان گئے کہ زمین پر کوئی غیرمعمولی ساعت جلوہ گر ہو چکی ہے۔ یہ نور کا وہ پیغام تھا جس کی تلاش میں اہلِ نظر نے صدیاں گزاری تھیں۔ اب وقت آ چکا تھا کہ وہ قدم‌ بوسی کریں اُس موعود ہستی کی، جس کا ظہور نسلِ آدم کے لیے ربانی رحمت کی دلیل تھا۔ ان کا سفر فقط جسمانی نہ تھا، بلکہ یہ وہ زیارت تھی جس کی بنیاد شوق، علم، اور صداقت پر تھی۔ ایسی زیارت جس میں ستارہ راہ دکھاتا تھا اور دل سجدہ کرتے تھے۔

اہلِ علم یروشلم پہنچے

صوبۂ یہودیہ کے ہیرودؔیس بادشاہ کے زمانے میں وہاں کے شہر بیت لحم میں سیدنا عیسیٰؑ کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ کچھ عرصے بعد، مشرق کے کسی دور دراز خطے سے علمِ نجوم کے کچھ اہلِ علم یروشلم پہنچے اور لوگوں سے استفسار کرنے لگے: “کہاں ہے وہ نومولود جو بنی اسرائیل کا بادشاہ ہوگا؟ ہم نے اس کا ستارہ طلوع ہوتے دیکھا ہے جو سیدنا عیسیٰؑ کی ولادت کی خوشخبری دیتا ہے، اور ہم اُس کی قدم‌ بوسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔”

یہ سن کر ہیرودؔیس بادشاہ اور یروشلم کے تمام باشندے گھبرا گئے کہ نہ جانے کیا نیا انقلاب آ رہا ہے۔ بادشاہ نے بیتُ المقدس کے تمام ائمۂ عظام اور علمائے دین کو بلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ “آسمانی کلام کے مطابق ابنِ اللہ کی ولادت کہاں ہونی ہے؟” علمائے کرام نے فرمایا: “یہودیہ کے شہر بیت لحم میں، کیونکہ صحیفۂ حضرت میکاؑ میں یوں درج ہے: ’اے بیت لحم، سرزمینِ یہوداہ! تُو اگرچہ چھوٹا ہے مگر تجھ سے ایک ہادی پیدا ہوگا جو میری امت بنی اسرائیل کی راہنمائی کرے گا۔‘”

یہ سن کر ہیرودؔیس نے ان نجومی اہلِ علم کو خفیہ طور پر بلا کر نرمی سے دریافت کیا کہ وہ ستارہ کب نمودار ہوا تھا۔ پھر انہیں کہہ کر روانہ کیا کہ “بیت لحم جاؤ، اس بچے (سیدنا عیسیٰؑ) کو تلاش کرو، اور جب پا لو تو مجھے خبر دینا تاکہ میں بھی اس کی قدم بوسی کر سکوں۔”

چنانچہ وہ روانہ ہوئے، اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہی ستارہ جو انہوں نے آسمان پر دیکھا تھا، ان کے آگے آگے چل رہا ہے، یہاں تک کہ وہ اُس مقام پر ٹھہر گیا جہاں سیدنا حضرت عیسیٰؑ موجود تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ان کے دل خوشی سے جھوم اٹھے۔ وہ اس گھر میں داخل ہوئے اور بی بی مریمؑ اور بچے (سیدنا عیسیٰؑ) کو دیکھ کر سجدہ ریز ہو گئے۔ انہوں نے اپنی نذر پیش کی: سونا، بخور، اور مُرّ۔ اور بعد ازاں، خواب میں ان کو وحی کے ذریعے ہدایت ملی کہ ہیرودؔیس کے پاس واپس نہ جائیں، بلکہ کسی اور راستے سے اپنے وطن لوٹ جائیں۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔


حضرت جامیؒ
آمد آن نورِ مجسم بر زمین
تا کند دل را ز ظلمت، پاکبین

ترجمہ:
وہ مجسم نور زمین پر آیا
تاکہ دلوں کو ظلمت سے پاک اور روشن بنا دے۔

تشریح:
جامیؒ اس شعر میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ موعود مسیحؑ کی آمد محض ایک جسمانی وجود کا ظہور نہ تھا بلکہ وہ ربّانی نور کا مظہر تھے۔ ان کی زیارت، ان کی موجودگی، دلوں سے جہالت، خود پرستی اور غفلت کی تاریکی کو ختم کرنے کے لئے تھی۔ وہ خود ہدایت کی روشنی تھے، اور جنہوں نے انہیں پہچانا، ان کے دل پاک اور آنکھیں بینا ہو گئیں۔


نتائج

  1. آسمانی علم کی سچائی: نجومیوں نے ایک ستارے سے وہ سچ پہچان لیا جو ہزاروں کتابیں بھی واضح نہ کر سکیں۔
  2. زیارت کی برکت: زیارتِ مسیحؑ ایک ظاہری ملاقات نہیں بلکہ روحانی انقلاب تھی، جس کے لیے قربانی، علم اور سچائی درکار تھی۔
  3. علمائے دین کا اعتراف: حتیٰ کہ وقت کے علمائے دین نے بھی صحیفوں سے تصدیق کی کہ بیت لحم ہی ظہور کی جگہ ہے۔
  4. نیت کی آزمائش: ہیرودؔیس کا جھوٹ اور نجومیوں کی صداقت ہمیں بتاتی ہے کہ نیت خالص نہ ہو تو راہِ ہدایت کبھی نہ ملے۔
  5. ربانی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے اپنے نبی کی حفاظت فرمائی، جو کہ الٰہی تدبیر کا ایک روشن نمونہ ہے۔

اختتامیہ

یہ واقعہ ہمیں صرف ایک پیدائش کی کہانی نہیں سناتا بلکہ ایک زیارت کا ادب سکھاتا ہے۔ وہ ستارہ جو نجومیوں کو چمکتا نظر آیا، درحقیقت ہر اس دل میں چمکتا ہے جو سچ، نور اور ہدایت کا متلاشی ہو۔ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کرنے والے نجومی ہمیں یہ سبق دے گئے کہ جو دل علم و سچائی کے ساتھ نکلے، اللہ تعالیٰ ان کے لئے ستارے بھی راہ دکھا دیتا ہے۔ اور جب قدم سچ کی راہ پر بڑھتے ہیں، تو بشارتیں آتی ہیں، اور زیارت خود گواہی بن جاتی ہے کہ ربّ ابھی بھی بندے کو اپنے نور سے نوازنا چاہتا ہے۔