حضرت موسیٰؑ کی ولادت، طفولیت اور مدین کی طرف ہجرت

جب زمین ظلم کی تپش سے لرزنے لگے، اور فرعونیت کی صداؤں سے آسمان کا سکوت ٹوٹنے لگے، تب قُدرت خامشی سے اپنے بندگانِ خاص کو ظہور عطا کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک پرنور ساعت میں، لاوی قبیلے کی آغوش سے وہ مقدّس طفل دنیا میں جلوہ گر ہوا جس کے چہرے پر نجات کی لکیر اور پیشانی پر نبوت کا نور رقم تھا وہی حضرت موسیٰؑ، جنہیں ربّ نے اپنے عظیم منصب کے لیے چُن رکھا تھا۔

فرعون کا جابر حکم جاری ہوا تھا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا ہر نرینہ قتل کر دیا جائے، لیکن جسے ربّ چاہے، زمانہ اس کا محافظ بن جاتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے، جب اندیشۂ ظاہر ہونے کا وقت قریب پایا، تو ربّ پر کامل بھروسا کرتے ہوئے ایک صندوق تیار کیا، اسے اندر و باہر قدرتی مادّے سے لیپ کر کے اس میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو رکھا، اور دریا کے کنارے سرکنڈوں میں چھوڑ آئی — یہ فراق نہیں، توکل کی معراج تھی۔

اسی اثنا میں، ربّ کے ارادے کے تحت فرعون کی بیٹی دریائے نیل کی جانب اشنان کے لیے آئی۔ جب اُس کی نگاہ صندوق پر پڑی، اُس نے خادماؤں کو اشارہ کیا کہ لا کر کھولیں۔ جیسے ہی صندوق کھلا اور اُس نے اس نو مولود کو روتے ہوئے دیکھا، اُس کا دل پگھل گیا۔ اُسے رحم آیا اور فرمایا: “یہ تو بنی اسرائیل کا بچہ ہے، مگر اب یہ میرا بیٹا ہوگا۔” اور اُسی لمحے اُس نے اس بچے کا نام رکھا “موسیٰ” یعنی “وہ جو پانی سے نکالا گیا”۔

حضرت موسیٰؑ کی بہن، جو دور کھڑی یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھی، آگے بڑھی اور شہزادی سے عرض کیا: “کیا میں کوئی ایسی دودھ پلانے والی نہ لے آؤں جو اس بچے کو پال سکے؟” اور یوں ربّ کی قدرت نے ماں کو بیٹے سے، اور بیٹے کو اپنی ماں کی آغوش سے پھر جوڑ دیا عجب تدبیرِ رحمت تھی یہ۔

حضرت موسیٰؑ نے شاہی محل میں پرورش پائی۔ لیکن جب قلبی شعور کی عمر کو پہنچے، تو ان کی روح اپنی مظلوم قوم کے دکھوں کی طرف مائل ہوئی۔ ایک روز، ایک مصری کو ایک اسرائیلی کو ظلم کرتے دیکھ کر، حضرت موسیٰؑ کا جلال بھڑکا اور اُس ظالم کو ضربِ عدل سے ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ ایک راز کی صورت میں رہتا، مگر دوسرے دن دو بنی اسرائیلیوں کی آپس کی لڑائی نے حقیقت کو آشکار کر دیا اور حضرت موسیٰؑ کے قتل کا فرمان فرعون کے محل سے جاری ہو گیا۔

تب حضرت موسیٰؑ خامشی سے مصر سے نکل پڑے یہ سفر فقط جان بچانے کا نہ تھا، بلکہ وہ راستہ تھا جس پر ربّ اپنے نبیوں کو جلا بخشتا ہے۔ وہ چلتے چلتے مدین کی وادی میں پہنچے، اور ایک کنویں کے کنارے تھکن سے بیٹھ گئے۔

اسی کنویں پر حضرت یتروؓ کی بیٹیاں آئیں، جو بکریوں کو پانی پلانے کی غرض سے وہاں تھیں، لیکن کچھ چرواہوں نے اُنہیں دھکیل کر پیچھے کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ، غیرت، شرافت اور مردانگی کا پیکر بن کر آگے بڑھے، اُن بیٹیوں کی مدد کی، اور ان کے جانوروں کو سیراب کیا۔ جب لڑکیاں گھر پہنچیں، تو اُن کے والد حضرت یتروؓ نے تعجب سے پوچھا: “آج جلدی کیسے آ گئیں؟” جواب دیا: “ایک مصری جوان نے ہماری مدد کی۔”

حضرت یتروؓ نے فرمایا: “جاؤ، اُسے بلاؤ! جو تمہارا محافظ بنا، وہ ہمارا مہمان بنے۔” اور یوں حضرت موسیٰؑ اُس گھر میں داخل ہوئے جہاں صرف دسترخوان نہ تھا، بلکہ ربّ کی تدبیر، تربیت اور تقدیر کی پہلی منزل تھی۔


حضرت سعدیؒ
به هر جا در افتی، خدا با توست
نگر در که افتی، نگر در که اوست

تشریح:
سعدیؒ فرماتے ہیں: “تو جہاں گرے، وہیں تیرا ربّ ساتھ ہے۔ یہ مت دیکھ کہ تجھے کون گرا رہا ہے، یہ دیکھ کہ وہ کون ہے جو تجھے وہاں سے اٹھا لے گا۔” حضرت موسیٰؑ کی حیاتِ طیبہ اسی نصیحت کی زندہ تعبیر ہے۔


نتائج:

  1. نجات کے در ہمیشہ دعاؤں، صبر اور ماں کی توکل سے کھلتے ہیں۔
  2. دریا، اگر ربّ چاہے، تو جائے امن و امان بن جاتا ہے۔
  3. بظاہر دکھائی دینے والے سانحے، دراصل ربّ کی تربیت کا نظام ہوتے ہیں۔
  4. اخلاص، غیرت اور شرافت وہ صفات ہیں جو نبوت کے دروازے کھولتی ہیں۔

اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ربّ کی راہیں محض ظاہر سے نہیں ملتیں وہ دل کو آزماتا ہے، شعور کو جِلاتا ہے، اور پھر اپنے خاص بندے کو ایسے مقام پر پہنچاتا ہے جہاں سے انسانیت کی نجات کا سفر شروع ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی حیات کا یہ پہلا باب، توکل، تربیت اور بشارت کا کامل نمونہ ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔