حضرت یوسفؑ کا مصری سلطنت میں تقرر
جب بندۂ صادق، قید کی دیواروں میں بھی سجدہ کی آنکھ کھولے، تو آسمان اس کی جھکی پیشانی کو تخت کی مسند پر بٹھا دیتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا عروج، اس راہ کا مینار ہے جہاں ہر قدم صبر سے اٹھتا ہے اور ہر لمحہ رب کی رضا کے سنگ ہوتا ہے۔ قید سے تخت، غلامی سے وزارت، اور تنہائی سے حکمت کا یہ سفر صرف اسی کو عطا ہوتا ہے جو تقویٰ اور حلم کی چادر اوڑھے۔
فرعون اور اُس کے درباریوں نے باہمی اتفاق سے حضرت یوسفؑ کی یہ تجویز منظور کرلی۔ فرعون نے خلوت میں اپنے وزراء سے کہا: “اس ذمہ داری کے لیے حضرت یوسفؑ جیسی حکمت، دانائی اور بصیرتِ الٰہی سے مزین شخصیت کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟”
پھر اُس نے حضرت یوسفؑ کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
“اے نوجوان! تم نے آسمانی پیغام کی جو تعبیر کی ہے، اُس سے واضح ہو گیا کہ تم سے زیادہ دانا، فہیم اور تدبیر والا شخص ہمارے دیس میں کوئی نہیں۔ لہٰذا ہم تمہیں اپنے سلطنت کا وزیرِ خوراک مقرر کرتے ہیں۔ تمہیں ایسے اختیارات دیے جا رہے ہیں کہ اب پورے مصر میں تمہاری اجازت کے بغیر کوئی کام نہ ہوگا۔ ہاں! صرف ہمارا مرتبہ تم سے بلند ہوگا۔”
یہ کہتے ہوئے فرعون نے اپنے ہاتھ سے شاہی انگوٹھی اتاری اور حضرت یوسفؑ کے ہاتھ میں پہنا دی۔ پھر شاہی لباس یعنی خلعتِ فاخرہ عنایت فرمایا، اور سونے کی مالا ان کے گلے میں پہنائی۔ اس رسم کے بعد، حضرت یوسفؑ کو شاہی بگھی میں بٹھایا گیا اور ایک جلوس کی شکل میں شہر بھر میں گھمایا گیا۔
فرعون کے سپاہی جلوس کے آگے آگے یہ اعلان کرتے چل رہے تھے:
“خبردار! ہوشیار! یہ ہے مصر کا نیا ناظمِ اعلٰی!”
یوں حضرت یوسفؑ کو پورے مصر میں اقتدار، عزت اور قبولیت عطا ہوئی۔
فرعون نے فرمایا: “میں، شاہِ مصر، تجھے یقین دلاتا ہوں کہ تیری مرضی کے بغیر مصر میں پتا بھی نہ ہلے گا۔”
اسی موقع پر فرعون نے حضرت یوسفؑ کا نام مصری زبان میں “صفنات فعنیع” رکھا۔ مزید برآں، اُس نے حضرت یوسفؑ کا نکاح ہیلیوپولس شہر کے بڑے پجاری فوطیفیرع کی صاحبزادی آسِناتھؓ سے کر دیا۔ یوں حضرت یوسفؑ کا مقام مصر میں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشرتی طور پر بھی اعلیٰ و ارفع ہو گیا۔
شیخ سعدی شیرازیؒ
گرچہ شب تیره بود و راه دراز
نورِ حق بر دل زند، گردد سرافراز
تشریح:
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ اگرچہ رات تاریک ہو، راستہ طویل ہو، اور قید کا سایہ گہرا ہو مگر جب رب کی روشنی دل میں اترتی ہے، تو وہی دل تخت پر بٹھایا جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا سفر اسی نور کا گواہ ہے اندھیرے سے اُجالے، غلامی سے حکمت، اور آزمائش سے عزت تک۔
نتائج:
- جو شخص تقویٰ، صبر اور استقامت کی روش اپناتا ہے، وہ رب کی زمین پر سربلند ہوتا ہے۔
- بادشاہ بھی اس کے فیصلوں کا محتاج ہو جاتا ہے جو الٰہی حکمت سے مالا مال ہو۔
- ظلمتِ قید ہو یا خواہش کی آزمائش جو بندہ سچائی پر قائم رہے، اُس کے لیے رب دروازے کھولتا ہے۔
- حضرت یوسفؑ کی زندگی گواہ ہے کہ خاک سے اٹھا کر عرش تک پہنچانے والا صرف وہی ہے جس کے ہاتھ میں سلطنت و ازل ہے۔
اختتامی پیغام:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ عروج نہ مال سے آتا ہے، نہ طاقت سے بلکہ وہ کردار سے جنم لیتا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے جن راستوں سے گزر کر وزارت کا دروازہ کھولا، وہ صرف اُن کے رب پر کامل یقین اور اپنے نفس پر غالب آنے کی علامت تھے۔ قید خانہ اُن کے لیے زوال نہیں، درِ فراز تھا اور اب سلطنت اُن کی اطاعت میں تھی، مگر دل آج بھی بندگی کے سجدے میں تھا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔