مچھروں کا عذاب اور فرعون کی ہٹ دھرمی

جب انسان نشانیوں کے باوجود حق کو جھٹلاتا ہے، اور ظلم کی دیواروں پر غرور کی اینٹ رکھتا ہے، تو ربّ العالمین اپنی حجت کو اور بھی نمایاں کر دیتا ہے، تاکہ کسی کو انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔

فرعون کی مسلسل نافرمانی کے بعد، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا:
“اے میرے نبی! کل صبح سویرے اُس وقت فرعون سے ملاقات کرو، جب وہ حسبِ عادت دریائے نیل کی جانب غسل کی نیت سے روانہ ہوگا۔ اسے میرا پیغام سنا دو کہ بنی اسرائیل کو جانے دو، تاکہ وہ بیابان میں جا کر میری عبادت کریں۔ اگر وہ اب بھی انکار پر مصر رہا، تو جان لے! میں اس کی سلطنت پر مچھروں کی ایسی فوج مسلط کروں گا جو اس کے محل، درباریوں، گلیوں، گھروں، بازاروں، حتیٰ کہ ہر ذرے پر چھا جائے گی۔”

مگر ربّ کا عدل یہ تھا کہ فرمایا:
“وادئ طُوملات، جہاں میرے مظلوم بندے بنی اسرائیل سکونت پذیر ہیں، وہاں ایک بھی مچھر نہ جائے گا، تاکہ تمہیں یقین ہو جائے کہ ’اللّٰهُ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ‘ اور وہی ہر حکمران پر غالب ہے۔”

پھر صبح ہوئی، اور جیسے ربّ نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔ مچھر غول در غول ہر سو نازل ہونے لگے۔ مصر کی فضا گونجنے لگی، مچھروں نے ایسی شدت سے کاٹا کہ مصریوں کے چہرے سوج گئے، بدن زخمی ہو گئے، اور نیند، سکون، چین، سب رخصت ہو گیا۔ فرعون کا قصر بھی نہ بچ سکا، اور اس کے تخت کے اردگرد بھی وہی قہر جاری تھا۔

فرعون، جو کبھی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، اب عاجز ہو کر حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کو بلوا بھیجا، اور التماس کی:
“تمہارا رب بہت طاقتور ہے، تم یہی قربانیاں مصر میں رہ کر کیوں نہیں پیش کر لیتے؟”

حضرت موسیٰؑ نے انتہائی وقار سے جواب دیا:
“ہم جس اللہ کے بندے ہیں، وہی ہمیں قربانی کا طریقہ سکھاتا ہے۔ ہم ایسے جانور ذبح کرتے ہیں جنہیں تم مقدس سمجھتے ہو، اگر ہم نے تمہارے سامنے انہیں قربان کیا تو تم ہمیں سنگسار کر دو گے۔ ہم کو صحرا میں جانا ہوگا، اور رب کا یہی حکم بھی ہے۔”

فرعون نے اپنی مصلحت دکھاتے ہوئے کہا:
“ٹھیک ہے، جاؤ! مگر زیادہ دور مت جانا، اور ہاں، میرے لیے بھی اپنے رب سے دعائے خیر کرنا۔”

حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:
“میں تمہارے لیے بھی دعا کروں گا، اور جیسے ہی دربار سے نکلوں گا، تمہاری رعایا کو مچھروں کے اس قہر سے نجات ملے گی۔”

پھر موسیٰؑ نے اپنے رب کے حضور دعا کی، اور ربّ رحیم نے اُس نبی کی التجا کو قبول فرمایا۔ اگلے ہی لمحے، تمام مچھر غائب ہو گئے، فضا صاف ہو گئی، اور زمین چین سے سانس لینے لگی۔ مگر فرعون، جو اپنی وعدہ خلافی میں پہچانا جاتا تھا، ایک بار پھر مکر گیا اُس نے اپنی بات سے رجوع کر لیا اور بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت نہ دی۔


حضرت بیدلؒ

دل چو کور است، نشنود بانگِ نور
کج روان را نشانی چہ سود؟
ترجمہ:
جب دل اندھا ہو جائے، تو روشنی کی آواز بھی اس پر اثر نہیں ڈالتی۔ جو راہِ حق سے بھٹک جائے، اُس کے لیے نشانیوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔


نتائج:

  1. اللّٰہ کی نشانی صرف آنکھوں کے لیے نہیں، دلوں کے لیے بھی ہوتی ہے اگر دل بند ہوں، تو آنکھیں بھی بینائی کھو دیتی ہیں۔
  2. مظلوموں پر نازل ہونے والے عذاب نہیں بلکہ ظالموں پر ہونے والی حجت ہی اصل معجزہ ہے۔
  3. وعدہ خلافی ایک ایسی بیماری ہے جو جھوٹے حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔
  4. اللہ تعالیٰ کی نصرت، اپنے وعدے کے مطابق، ہمیشہ اہلِ صبر اور اہلِ عبادت کے ساتھ ہوتی ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں بتاتا ہے کہ اگرچہ ظلم کا زور وقتی ہو سکتا ہے، مگر حق کی صدا ہمیشہ دیرپا ہوتی ہے۔ موسیٰؑ کے صبر، ہارونؑ کی رفاقت، اور فرعون کی جھوٹی توبہ، ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قہر کے بعد جو بھی بچ جائے، اُسے سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ ایمان وہی ہے جو ہر آزمائش کے بعد رب کی طرف جھک جائے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔