خلیل اللہ کی تسلیم کا لمحہ

جب بندگی عشق بن جائے، تو آزمائش عبادت بن جاتی ہے۔ اور جب دل خدا کی رضا میں فنا ہو جائے، تو ہر حکم سراپا سکون بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو وقتاً فوقتاً ایسی گھڑی میں رکھا جہاں اطاعت کا معیار بلند کیا جاتا ہے۔ مگر حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش ایک ایسی چوٹی تھی، جہاں انسان اپنے دل کی سب سے عزیز متاع کو رب کی خوشنودی پر قربان کرتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان پر فرشتے رک گئے، زمین کی سانس تھم گئی، اور ایک باپ کے دل میں رب کی رضا نے بیٹے کی محبت پر غلبہ پا لیا۔
ادھر دوسری طرف یوں ہوا کہ ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی سعادت مندی آزمانے کے لئے آپؑ کو پکارا

اے ابراہیم

آپؑ نے خدا تعالیٰ کو جواب دیا

حاضر ہوں، میرے رب

حکم خداوندی ہوا

اپنے عزیز بیٹے اسحاقؑ کو، جو تمہارے پاس رہ گیا ہے اور جسے تم بہت چاہتے ہو، ساتھ لے کر موریاہ کی سر زمین کو روانہ ہو جاؤ۔
وہاں ایک پہاڑ پر، جو میں تمہیں دکھاؤں گا، اپنے بیٹے کو قربان کر دو

یہ وہ لمحہ تھا جب ربِ ذوالجلال نے ایک باپ سے وہ مانگا، جو اُس کے دل کی روشنی اور آنکھوں کا نور تھا۔
وہ بیٹا، جو برسوں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا، جو اُمیدوں کی شب میں سحر بن کر آیا تھا۔
اور اب، وہی بیٹا حکمِ ربانی کے تابع ہونے والا تھا۔
مگر نہ باپ نے سوال کیا، نہ توقف فرمایا۔ نہ آہ بھری، نہ کوئی گلہ زبان پر آیا۔
کیونکہ جن دلوں کو عشقِ الٰہی چھو جائے، وہ فقط اطاعت کے زخم پر لبیک کہتے ہیں۔

حافظ شیرازی فرماتے ہیں

در مقامِ عشق جان دادن رواست
گرچہ فرزندِ دل و جان باشد او

تشریح

حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ عشق کی وہ منزل جس میں جان دینا روا ہے، وہاں محبوبِ حقیقی کی رضا کے سامنے دنیا کی ہر محبت ماند پڑ جاتی ہے۔
اگر وہ بیٹا ہو، جو دل و جان کا خلاصہ ہو، تب بھی اُس کا قربان ہو جانا عین عبادت ہے، اگر محبوب کا اشارہ ہو۔
یہی مقام حضرت ابراہیمؑ کو عطا ہوا، جنہوں نے بیٹے کی محبت کو رب کی رضا کے قدموں پر رکھ دیا۔
ان کا دل ٹوٹا نہیں، بلکہ جُڑ گیا۔ کیونکہ فنا کے بعد ہی وصال کی ساعت آتی ہے۔

نتائج

حضرت ابراہیمؑ کی زندگی سے ہمیں سکھایا گیا کہ ایمان صرف اقرار کا نام نہیں بلکہ کامل تسلیم کا نام ہے
قربانی کی حقیقت کسی جانور کے ذبح میں نہیں، بلکہ دل کی وہ کیفیت ہے جس میں انسان اپنی محبوب ترین شے کو رب کی رضا پر نچھاور کر دے
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے، تاکہ وہ آزمائش کے بعد انہیں بلند مقام عطا کرے
تسلیم کا درجہ وہی کامل ہے جہاں بندہ کسی سوال یا توقف کے بغیر فقط لبیک کہہ دے
خلیل اللہ نے ہمیں اطاعت کا وہ معیار عطا کیا جو رہتی دنیا تک قربانی کی اصل روح بن گیا

اختتامیہ

یہ سبق ہمیں محض ایک تاریخی واقعہ نہیں سناتا، بلکہ یہ ہر اس دل سے مخاطب ہے جو رب سے سچا رشتہ چاہتا ہے۔
یہ ہر اُس انسان کے لیے پیغام ہے جو اپنے “اسحاق” سے جُڑا ہوا ہے — وہ عزیز، وہ خواب، وہ تعلق جسے دل سے لگایا ہوا ہے۔
جب حکمِ رب آئے، تو ہمیں ابراہیمی تسلیم کے ساتھ جواب دینا ہے
حاضر ہوں، اے میرے رب
یہی وہ لمحہ ہے، جب زمین کی آزمائش، آسمان کی قربت میں بدل جاتی ہے
اور انسان کا دل، مقامِ خلت سے ہمکلام ہو جاتا ہے

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔