صدائے ضمیر اور پردۂ حیا
شام کے وقت جب باغِ عدن میں ٹھنڈی نسیم بہنے لگی، درختوں کی شاخیں خاموشی سے جھومنے لگیں اور فضا میں نورانی سکوت چھا گیا، تب حضرت آدمؑ اور اُن کی زوجہ نے اپنے خالقِ حقیقی، مالکِ ارض و سما، ربِ رحیم و حکیم کی حضوری کو شدت سے محسوس کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب معصوم انسانی شعور پر پہلی بار نافرمانی کا بوجھ آنکھوں کے پردوں سے ٹکرا کر دل کی تہوں میں اُترنے لگا۔ اس لمحے اُنہیں اپنی برہنگی کا شعور ہوا، اور وہ شرمندگی کے احساس سے خود کو درختوں کے پیچھے چھپانے لگے۔ یہ شرمندگی صرف جسمانی نہ تھی، بلکہ باطنی کشمکش اور اندرونی لرزہ تھی، جو اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ گناہ کا زہر دل کی پاکیزگی کو چھو چکا ہے۔
ربِ کریم کی آواز جو سراپا محبت اور حکمت تھی، باغ میں گونجی: “اے آدم! کہاں ہو؟” یہ آواز کوئی غضبناک پکار نہ تھی، بلکہ ایک تربیتی اور لطیف سوال تھا، جو اصل میں انسان کی گمشدہ حالت کا اظہار تھا۔ حضرت آدمؑ نے عرض کیا: “اے میرے رب! جب میں نے تیری موجودگی کو محسوس کیا، تو اپنی برہنگی پر شرم آئی، اور اس وجہ سے میں چھپ گیا۔” رب العالمین نے استفسار فرمایا: “کس نے تجھے بتایا کہ تُو برہنہ ہے؟ کیا تُو نے وہ درخت کا پھل کھا لیا ہے جس سے میں نے تجھے روکا تھا؟” آدمؑ نے کہا: “وہ عورت جسے تُو نے میرے ساتھ پیدا کیا، اُس نے مجھے وہ پھل دیا اور میں نے کھا لیا۔” تب خالقِ حقیقی نے اُس عورت سے فرمایا: “تو نے یہ کیا غضب کر ڈالا؟” اور اُس نے جواب دیا: “سانپ نے مجھے بہکایا، تو میں نے کھا لیا۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب فطرتِ انسانی نے اپنی آزادی کو اختیار کرتے ہوئے نافرمانی کا مزہ چکھا، اور نتیجہ شرم، خجالت اور روحانی جدائی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ربِ کریم نے نہ تو فوراً سزا دی، نہ دروازے بند کیے، بلکہ سوال کے ذریعے انسان کے دل پر دستک دی، تاکہ وہ خود اپنی غلطی کا شعور حاصل کرے۔ اور یہی دراصل انبیاء اور اولادِ آدم کے لیے اصل تعلیم ہے—کہ نافرمانی کے بعد بھی اگر دل جاگے، ضمیر زندہ ہو، اور آنکھیں نم ہوں، تو توبہ اور رجوع کے دروازے بند نہیں ہوتے۔
شاعرِ ایران “حافظ شیرازی” فرماتے ہیں:
“مرا عهدیست با جاناں، که تا جان در بدن دارم،”
“هواداری کنم از عهد و پیمانِ محبت را”
یعنی: “میرے محبوب سے ایک عہد ہے، جب تک سانس باقی ہے، میں محبت اور وفاداری کے اس عہد کو نبھاؤں گا۔”
یہی عہد آدمؑ اور اُس کی نسل کو یاد رکھنا چاہیے کہ خالق سے بندگی کا رشتہ صرف اطاعت سے نہیں بلکہ وفا، شرم، اور ندامت سے بھی جڑتا ہے۔
نتائج:
- انسانی ضمیر، فطرت کی روشنی سے بیدار ہوتا ہے اور غلطی کے بعد شرمندگی ربّ سے قرب کا پہلا اشارہ ہے۔
- گناہ کے بعد انسان کا پہلا ردعمل “چھپنا” ہوتا ہے، لیکن ربّ کی رحمت اُسے “بلانے” میں پہل کرتی ہے۔
- خالقِ کائنات کا انداز محبت بھرا اور تربیتی ہے، وہ سزا دینے سے پہلے انسان کو اپنے باطن سے روبرو کرتا ہے۔
- انسان کو اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی راستہ نجات اور بحالی کی طرف لے جاتا ہے۔
- شیطان ہمیشہ فریب اور دھوکہ سے کام لیتا ہے، اور انسان کو باطن کی خوبصورتی کا وعدہ کر کے نافرمانی پر اُبھارتا ہے۔
اختتام:
یہ واقعہ صرف حضرت آدمؑ اور اُن کی زوجہ کی کہانی نہیں،
بلکہ ہر انسان کے ضمیر کی تاریخ ہے۔
آج بھی جب ہم ربِ کریم کی حضوری کو محسوس کرتے ہیں،
تو ہماری اندرونی حالت، ہمارے گناہ، اور ہماری کمزوریاں
ہمیں درختوں کے پیچھے چھپنے پر مجبور کرتی ہیں۔
لیکن وہی رب، جو اُس دن آدمؑ کو آواز دے رہا تھا،
آج بھی اپنے بندوں کو محبت سے پکار رہا ہے:
“اے انسان! کہاں ہو؟”
اگر ہم اپنی کمزوری کو پہچان کر اُس کی طرف لوٹیں،
تو وہ اپنے دامنِ رحمت کو وسیع کر کے
ہمیں پھر سے جنتِ وصال کی طرف بلاتا ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔