تخلیقِ حضرت آدمؑ
جب ربُّ العالمین، خالقِ کل و جان نے ارادہ فرمایا کہ زمین پر ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرے جو اُس کی نیابت کرے، تو اُس نے خاکِ زمین کو اپنی مشیّت سے چُن کر سانی کیا، نرم کیا، اور اپنے امرِ “وجود” سے اُس میں روح پھونکی۔ یوں مٹی کا وہ بےجان پیکر، حضرت آدمؑ، روح سے معمور ہو کر اشرف المخلوقات قرار پایا۔
ربّ کریم نے انہیں اس جنت میں بسایا جو میدانِ عدن میں ازل سے ہی اُس کی قدرت سے آباد تھی — جنتِ فردوس۔
یہ جنت ایسے دلکش درختوں سے بھری ہوئی تھی جو نہ صرف دیکھنے میں خوشنما تھے بلکہ ذائقہ، خوشبو اور حکمت سے لبریز بھی۔
جنت کے بیچ دو خاص درخت تھے:
- شجرِ حیات – جو جاودانی زندگی کی علامت تھا
- شجرِ ممنوعہ – جس سے نزدیک جانے اور اس کا پھل کھانے سے ممانعت فرمائی گئی
یہ دونوں درخت، ربِّ علیم کی آزمائش کے نشان تھے اطاعت اور شعور کا پہلا مرحلہ۔
جنت کی نہریں:
جنت کو سیراب کرنے والا ایک مرکزی دریا چار نہروں میں تقسیم ہوتا:
- فیسون – جو ملکِ خویلہ کی طرف بل کھاتی بہتی، جہاں
خالص سونا
سنگِ سلیمانی
نایاب خوشبوئیں پائی جاتیں
- جیحون – جو سرزمینِ کوش کو سیراب کرتی
- دِجلہ – اسور کے مشرق میں رواں
- فرات – نہایت لطیف، شیریں اور برکت سے بھرپور
یہ نہریں صرف پانی کی روانی نہیں، بلکہ خالقِ حسن کی کاریگری اور اُس کی بخشش کا اعلان تھیں۔
حکیم ناصر خسروؒ فرماتے ہیں:
“خاکِ تاریک را ز نورِ خود،
زندہ کرد و خلیفہ ساخت ازو.”
تشریح:
اللہ تعالیٰ نے تاریک مٹی کو اپنی نورانی تجلی سے زندہ کیا، اور پھر اُسے خلیفہ بنا کر تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی۔
نتائج :
- انسان کی عظمت اُس کے خالق کی عطا کردہ روح، علم اور فہم سے ہے، نہ کہ صرف اس کی مٹی سے۔
- حضرت آدمؑ کو جنت میں جگہ دے کر اللہ نے اطاعت و آزادی کے فرق کو واضح فرمایا کہ حکم عدولی قربت کو محرومی میں بدل سکتی ہے۔
- جنت کی نعمتیں محض عیش و عشرت نہیں، بلکہ ہر نعمت کے ساتھ آزمائش بھی وابستہ ہے۔
- درخت، دریا، اور جنت کے مناظر محض فطری مظاہر نہیں، بلکہ وہ ربِّ حکیم کی حکمت و علم کا مظہر ہیں۔
- حضرت آدمؑ کی تخلیق ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر انسان میں نور کا جوہر چھپا ہے، جو اطاعت اور بندگی سے ظاہر ہوتا ہے۔
اختتام :
یہ سبق اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کی تخلیق محض جسمانی ساخت نہیں، بلکہ ایک روحانی اعلان ہے کہ رب تعالیٰ نے مٹی میں روح ڈال کر اُسے نور سے بلند کیا۔ حضرت آدمؑ کی جنت میں موجودگی، علمِ اشیاء کی عطا، اور آزمائش کا پہلا دروازہ ہمیں زندگی کی اصل حقیقت سکھاتا ہے اور وہ ہے فرمانبرداری، شکرگزاری، اور قربتِ ربّانی کی جستجو۔
ان نہروں، درختوں اور آزمائشوں میں ہر انسان کے لیے ایک آئینہ ہے جو اپنی اصل پہچان، مقصدِ تخلیق، اور راستہِ بندگی کو جاننے کا ذریعہ ہے
مندرجہ سوالات کے جوابات دیں