سبق نمبر 1- تخلیقِ حضرت آدمؑ

حضرت آدمؑ کی تخلیق یوں ہوئی کہ  اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین کی مٹی سانی اور اُس میں جان ڈال دی یوں حضرت آدمؑ ذی نفس ہوا۔  اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کرنے کے بعد اُسی باغ (جنت فردوس) میں رکھا جو  اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے پہلے ہی میدان عدن میں لگ چکا تھا۔  اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے زمین پر طرح طرح کے درخت پھوٹ نکلے، ایسے درخت جو دیکھنے میں دل کش اور کھانے کے لئے اچھے تھے۔ باغِ عدن (جنت فردوس) کے بیچ میں دو خاص درخت تھے۔ ایک نام شجرِ حیات اور دوسرے درخت کا نام شجرِ ممنوعہ تھا۔

باغِ عدن کو سیراب کرنے والا دریا چار شاخوں میں تقسیم ہو کر بنا تھا۔  پہلی شاخ کا نام فیسون تھا۔ وہ ملکِ خویلہ کو بل کھاتی ہوئے بہتی تھی۔  جہاں خالص پانسے کا سونا، سنگِ سلیمانی،  اور نایاب خوشبو پائی جاتی تھی۔ دوسری شاخ کا نام جیحون تھا جو کوش کو لہراتی پھرتی تھی۔ تیسری شاخ کا نام دِجلہ تھا جو اسور کے مشرق میں بہتی تھی۔ اور چوتھی شاخ نام فرات رکھا۔

سبق کا خلاصہ  

 ہمیں انسان کا مقصد تخلیق کا پتا چلتا ہے کہ انسان کو زمین پر کس لیے بھیجا گیا؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں ۔ ہم کو باقی مخلوق سے بلند اور اشرف المخلوقات بنایا گیا تو کس لیے؟اور یہ بھی کہ، خلیفہ کس کا بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس کے ہماری زندگی پر کیا اثرات ہیں ؟اور ہم اس بارے میں بھی سوچیں کہ ایک خلیفہ یا حکمران کس بنیاد پر بنایا جاتا ہے اور اس میں ایسی کیا اہلیت ہے کہ باقیوں پر اس کو فضیلت دی جائے. اور وہ دوسروں کی زندگی کس طرح متأثر کر سکتا ہے۔
 مندرجہ سوالات کے جوابات دیں