آغازِ طوفان

جب زمین ظلم سے بھر گئی، اور انسان اپنے خالق کی ہدایت سے دور جا پڑا، تب عدل و رحمت کا خالق حضرت نوحؑ کو نجات کے سفیر کے طور پر منتخب کر چکا تھا۔ آپؑ نے برسوں دعوت دی، صبر کیا، ہدایت کی راہیں دکھائیں، لیکن جب حق کو جھٹلانے والے اپنی سرکشی سے باز نہ آئے، تو وہ وقت آ پہنچا جسے وعدۂ تطہیر کہا جا سکتا ہے۔

حضرت نوحؑ، جو اس وقت عمرِ عزیز کی چھ سو بہاریں دیکھ چکے تھے، الٰہی حکم کے مطابق اپنی اہلیہ، تینوں بیٹوں اور ان کی بیویوں کو لے کر کشتی میں سوار ہو چکے تھے۔ اسی طرح زمین و آسمان کے سب ذی نفس جاندار جوڑے کی صورت میں، اُس کشتیِ نجات میں داخل کیے گئے—جو اطاعت و وفا کی علامت تھی۔

ساتواں دن آیا، اور اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے مطابق، زیرِ زمین چشمے پھوٹ پڑے، اور آسمان کے دروازے کھل گئے۔ ایک ایسا موسلا دھار طوفان نازل ہوا جو چالیس دن و رات تک مسلسل برستا رہا۔ زمین کا سکوت شور میں بدل گیا، اور فطرت نے اپنے بگاڑ کی اصلاح بارش کے سیلاب سے کی۔

کشتی، جسے زمین کے لوگوں نے تمسخر کا نشانہ بنایا تھا، اب زمین پر زندگی کی آخری نشانی بن چکی تھی۔ جو اندر تھا، وہ محفوظ رہا۔ جو باہر تھا، وہ فنا کے دہانے پر تھا۔ کشتی کا دروازہ بارگاہِ خداوندی کے حکم سے بند ہو چکا تھا، اور اس دروازے کے باہر ہر فریاد خاموش ہو چکی تھی۔


: حکیم سنائی غزنوی

“چو سیلِ قضا آید از حکمِ دوست،
نماند نہ قصر و نہ کلبہ دروست”

یعنی: جب ربّ کی طرف سے قضا کا سیلاب اُترتا ہے، تو نہ قصر سلامت رہتے ہیں اور نہ جھونپڑیاں۔

تشریح:
حکیم سنائی کی یہ حکیمانہ بات سبق دیتی ہے کہ جب خالقِ حکیم کا فیصلہ آتا ہے، تو وہ مخلوق کی تمیز نہیں رکھتا۔ نجات صرف اُنہی کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے در پر سرفگندہ ہوں، اطاعت گزار ہوں، اور وفادار ہوں۔


نتائج:

  1. طوفان خدا کی طرف سے انکارِ حق کے خلاف عدل کی علامت ہے۔
  2. حضرت نوحؑ کی اطاعت نے کشتی کو ایمان والوں کے لیے نجات کا وسیلہ بنایا۔
  3. ہر ذی نفس کے جوڑے کا بچایا جانا ربّ کی حکمت اور رحمت کی علامت ہے۔
  4. طوفان سے پہلے کشتی کی تیاری بندگی کی علامت ہے، طوفان کے دوران اس میں پناہ لینا حفاظتِ ایمان کا استعارہ ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ طوفان سے پہلے تیاری صرف لکڑیوں اور کیلوں سے نہیں، بلکہ یقین، اطاعت اور اخلاص سے کی جاتی ہے۔ جو رب کی پناہ چاہتا ہے، اُسے بند دروازوں سے پہلے اپنے دل کا دروازہ کھولنا ہوتا ہے۔ نوحؑ کی کشتی دراصل ہر دور کے سچے دل والوں کے لیے ایک پیغام ہے: کہ حق کی راہ پر چلنے والے طوفان میں بھی محفوظ رہتے ہیں، اور اطاعت کی کشتی آخرت کی منزل تک ضرور پہنچتی ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔