حضرت یوسفؑ کی جدائی اور بھائیوں کا منصوبہ

جب خوابِ نبوت کے چراغ دل کی روشنی سے فروزاں ہوں، تو آزمائشیں بھی اسی نور کے خلاف اندھیرے کا جال بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ حضرت یوسفؑ کی حیاتِ طیّبہ کا یہ باب محض جدائی کا تذکرہ نہیں، بلکہ باطن کی گہرائی، بھائیوں کے حسد کی آگ، اور صبر و تسلیم کی وہ بلند چوٹی ہے جس پر اہلِ وفا قدم رکھتے ہیں۔ یہ سبق ہمیں اُن ساعتوں کی سیر کراتا ہے جہاں محبت رنج میں ڈھلتی ہے، خواب آزمائش کے دریا سے گزرتے ہیں، اور کنویں کی تاریکی تختِ عزت کی تمہید بن جاتی ہے۔

ایک دن حضرت یوسفؑ کے بھائی مویشیوں کے گلہ لے کر دور چراگاہوں کی طرف نکل گئے۔ حضرت یعقوبؑ نے شفقت سے اپنے پیارے بیٹے حضرت یوسفؑ کو بلایا اور فرمایا: “بیٹا! ذرا جا کر اپنے بھائیوں کی خیریت معلوم کرو، وہ شاید سکم کے اطراف میں ہوں۔”

حضرت یوسفؑ نے مؤدب انداز میں عرض کیا: “ابا جان! حکم سر آنکھوں پر۔”

پس حضرت یوسفؑ وادی الخلیل سے روانہ ہو کر سکم کے علاقے میں پہنچے، مگر بھائیوں کا سراغ نہ ملا۔ تلاش کرتے کرتے ایک اجنبی سے ملاقات ہوئی، اُس نے فرمایا: “میاں، کیا تلاش کر رہے ہو؟” حضرت یوسفؑ نے جواب دیا: “میں اپنے بھائیوں کو ڈھونڈ رہا ہوں، کیا آپ نے انہیں مویشی چراتے دیکھا ہے؟”

اجنبی نے کہا: “وہ یہاں سے روانہ ہو چکے ہیں، میں نے اُنہیں کہتے سنا تھا کہ دُوتان کی طرف جا رہے ہیں۔”

حضرت یوسفؑ نے دُوتان کی راہ لی اور بالآخر اپنے بھائیوں کو پا لیا۔

ابھی آپؑ فاصلہ ہی پر تھے کہ بھائیوں نے آپؑ کو آتے دیکھ لیا۔ دلوں کے زہر نے زبان پر سازش کا روپ دھارا: “یہی ہے وہ خواب دیکھنے والا! آج کا دن ہے کہ اُس کا باب بند کر دیا جائے۔ اُسے کسی اندھی کھائی میں ڈال دیتے ہیں اور ابا جان سے کہہ دیں گے کہ کسی درندے نے اُسے چیر پھاڑ دیا۔ پھر دیکھیں گے کہ خوابوں کی حقیقت کیا نکلتی ہے۔”

حضرت روبینؓ نے مداخلت کی: “ایسا بڑا گناہ نہ کرو۔ اگر کچھ ارادہ ہے تو اُسے زندہ ہی کھائی میں ڈال دو، لیکن اُس کا خون نہ بہاؤ۔”

روبینؓ کی تمنا یہ تھی کہ موقع ملے تو حضرت یوسفؑ کو بچا کر والد محترم کی خدمت میں واپس پہنچا دیں۔ مگر بھائیوں کے دل سخت ہو چکے تھے۔ جیسے ہی حضرت یوسفؑ نزدیک پہنچے، انہوں نے آپؑ کو دبوچ لیا، بدن سے خلعتِ محبت نوچ لی، اور بےدرَدی سے ایک تاریک گڑھے میں ڈال دیا۔

پھر وہ ظالم دل سکون سے کھانے بیٹھ گئے۔ نگاہ اُٹھی تو قافلہ اسمٰعیلی سوداگرانِ جلعد سے آتا دکھائی دیا، جن کے اونٹ مصر کی سمت رواں دواں تھے۔ حضرت یہوداہؓ نے بھائیوں سے کہا: “اگر ہم اُسے قتل کریں تو کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ اُسے بیچ ڈالیں، آخر وہ ہمارا بھائی ہے، ہمارا گوشت و خون ہے۔”

بھائی اس رائے پر متفق ہو گئے۔ قافلہ نزدیک آیا، حضرت یوسفؑ کو کھائی سے نکالا گیا، اور بیس چاندی کے سکوں کے عوض سوداگران کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ قافلہ اُنہیں لے کر مصر روانہ ہو گیا۔

پھر بھائیوں نے ایک بکرا ذبح کیا، حضرت یوسفؑ کے چوغے کو اُس کے خون سے تر کیا، اور اپنے والد حضرت یعقوبؑ کے پاس لے آئے۔

عرض کیا: “ابا جان! یہ چوغہ ہمیں بیابان میں ملا ہے، دیکھئے تو سہی، یہ یوسفؑ کا تو نہیں؟”

حضرت یعقوبؑ نے جیسے ہی وہ خلعتِ پیار دیکھا، اُن کی دنیا تاریک ہو گئی۔ رنج و غم کی شدت سے نعرہ بلند کیا: “ہائے میرے یوسفؑ! تجھے کسی وحشی درندے نے پھاڑ کھایا!”

غم سے نڈھال ہو کر گریباں چاک کیا، سیاہ لباس زیب تن کیا، اور مسلسل ایّام تک سوگ میں ڈوبے رہے۔ بیٹے اور بیٹیاں تسلی دینے آئے، مگر حضرت یعقوبؑ کی زبان پر یہی تھا: “میں تو اپنے یوسفؑ کے غم میں روتا روتا قبر میں جا اُتروں گا۔”


مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں

بچگانے خواب دید و خلق گفتندش دروغ عاقبت تعبیر آن آمد فروغ

تشریح:
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ جب بچہ خواب دیکھتا ہے، تو دنیا اُسے جھوٹا کہتی ہے، مگر وقت آتا ہے کہ وہی خواب سچ بن کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا خواب بھی ابتدا میں تمسخر کا نشانہ بنا، مگر رب کی تدبیر نے اُسے وہ مقام عطا کیا کہ وہی جھٹلانے والے بعد میں جھکنے والے بنے۔


نتائج:

حسد انسان کے دل کو زنگ آلود کر دیتا ہے، اور رشتوں کو خاکستر بنا دیتا ہے۔
آزمائشیں مؤمن کے خوابوں کو حقیقت کے دروازے تک لے جانے والے پل ہیں۔
والدین کی دعا اور محبت، ہر مصیبت میں محافظ بن کر سایہ کرتی ہے۔
اللہ کی تدبیر انسان کی سازشوں سے کہیں بلند اور کامل ہوتی ہے۔


اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کنویں کی گہرائی دراصل بلندی کی ابتدا ہے۔ جسے دنیا دھکیلتی ہے، اگر وہ دل میں رب کا سہارا رکھے، تو وہیں سے راستہ تختِ سلطنت تک نکلتا ہے۔ یوسفؑ گرتے نہیں، اٹھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ خوابوں کو حقیقت بنانے والا، صرف وہی ہے جو خواب دکھاتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے جواب دیں۔