سبق نمبر 2۔ حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں ؓ کی سازش

ایک دن حضرت یوسف ؑ کے بھائی ؓ اپنے مویشیوں کو چرانے کے لئے گھر سے بہت دور گئے ہوئے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو بلایا اور کہا بیٹا ذرا جاکر اپنے بھائیوں ؓ کی کوئی خیر خبر تو لاؤ۔
وہ لوگ مویشی چرانے سکم کے علاقے کو نکل گئے ہونگے جاؤ بیٹا اُن کی خیر خبر لاؤ۔
حضرت یوسف ؑ نے جواب دیا! بہتر ابا جان!” حضرت یوسف ؑ وادیُ الخلیل سے روانہ ہوکر سکم کے علاقے میں جا پہنچے۔ اپنے بھائیوں ؓ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے حضرت یوسف ؑ کی مڈ بھیڑ ایک اجنبی سے ہوگئی۔ اُس نے حضرت یوسف ؑ سے پوچھا کیا ڈھونڈتے پھر رہے ہو میاں؟
حضرت یوسف ؑ نے جواب دیا! میں اپنے بھائیوں ؓ کو ڈھونڈ رہا ہوں بزرگوار۔ کیا آپ نے انہیں یہاں کہیں مویشی چراتے دیکھا ہے؟
اُس اجنبی نے جواب دیا! میاں وہ یہاں سے جاچکے ہیں لیکن میں نے انہیں کہتے سنا تھا کہ چلو دُوتان کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت یوسف ؑ اپنے بھائیوں ؓ کی تلاش میں دوباره چل پڑے اور بالآخر دُوتان پہنچ کر انہیں ڈھونڈ نکالا۔
ادھر حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں ؓ نے دور ہی سے حضرت یوسف ؑ کو دیکھا اس سے پیشتر آپ ؑ ان کے نزدیک پہنچتے انہوں نے آپ ؑ کو جان سے مار دینے کا منصوبہ بناتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا ۔ وہ آرہا ہے بڑے بڑے خواب دیکھنے والا! آج موقع ہے کہ اس کا قصہ تمام کرکے یہیں کسی کھائی میں پھینک دیں۔ ہم کہہ دیں گے کہ کوئی خونی درندہ اسے کھا گیا ہے۔ پھر پتہ چلے گا کہ حضور کے خواب سچے تھے یا پھر جھوٹے! حضرت روبین ؓ نے اپنے بھائیوں ؓ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا: اس گناہِ کبیرہ سے باز آجاؤ! اگر چاہو تو اُسے کسی کھائی میں پھینک دو مگر اس کی جان مت لو۔ حضرت روبین ؓ کی خواہش تھی کہ کسی طرح حضرت یوسف ؑ کو ان کے چنگل سے بچا کر بحفاظت اپنے والد کی خدمت میں پہنچا دے۔
تاہم جیسے ہی حضرت یوسف ؑ قریب پہنچے تو آپ ؑ کے بھائیوں ؓ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے حضرت یوسف ؑ کو دبوچا اور وہ خلعت جو حضرت یوسف ؑ نے پہنے ہوئے تھے اتار کر چھین لی اور حضرت یوسف ؑ کو اٹھا کر ایک کھائی میں پھینک دیا۔
اور وہ کھانا کھانے بَیٹھے اور آنکھ اُٹھائی تو دیکھا کہ اِسمٰعیلِیوں کا ایک قافِلہ جِلعاد سے آ رہا ہے جو سوداگر تھے اور گرم مصالح اور رَوغنِ بلسان اور مُرّ اُونٹوں پر لادے ہُوئے مِصر کو لِئے جا رہے تھے۔ تب حضرت یہُوداؔہ ؓ نے اپنے بھائِیوںؓ سے کہا کہ اگر ہم اپنے بھائی ؑ کو مار ڈالیں اور اُس کا خُون چِھپائیں تو کیا نفع ہو گا؟ آؤ اُسے اِسمٰعیلِیوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں کہ ہمارا ہاتھ اُس پر نہ اُٹھے کیونکہ وہ ہمارا بھائی اور ہمارا خُون ہے۔ اُس کے بھائِیوں ؓ نے اُس کی بات مان لی۔
چناچہ جب وہ سَوداگر قریب پہنچے تب اُنہوں نے حضرت یُوسُؔف ؑ کو کھینچ کر کھائی سے باہر نِکالا اور اُسے اِسمٰعیلِیوں کے ہاتھ بِیس رُوپَے کو بیچ ڈالا اور وہ حضرت یُوسُؔف ؑ کو مِصر میں لے گئے۔
ان کے جانے کے بعد حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں ؓ نے ایک بکرا ذبح کرکے حضرت یوسف ؑ کی خلعت خون میں ڈبو کر تر کردی اور اسے اپنے باپ حضرت یعقوب ؑ کے پاس لے جا کر کہنے لگے! ابا جان! یہ چوغہ ہمیں بیابان میں پڑا ملا ہے ذرا دیکھئے کہیں یہ یوسف ؑ کا تو نہیں؟
حضرت یعقوب ؑ نے اسے پہچان لیا اور دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگے! اے میرے خدایا! یہ تو یوسف ؑ کا چوغہ ہے۔ ہائے میرے بچے تجھے کوئی خونی درندہ کھا گیا۔ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر گیا ہوگا وہ درندہ! روتے ہوئے شدتِ غم سے حضرت یعقوبؑ نے اپنا گریباں چاک کرلیا اور سیاہ لباس پہن کر کئی ہفتے تک یوسف ؑ کا ماتم کرتے رہے۔ حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے ؓ اور بیٹیاں تسلی دینے آئے لیکن ان طفل تسلیوں سے کیا ہوتا؟ حضرت یعقوب ؑ کہتے تھے:” میں اسی طرح اپنے بیٹے کا ماتم کرتے ہوئے قبر میں چلا جاؤں گا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔