حضرت یوسفؑ، منسّیؓ و افرائیمؓ، اور قحط کی گھڑی

جب ربّ ذوالجلال کسی بندے کے خواب کو زمین پر اُتارنے کا فیصلہ فرماتا ہے، تو آزمائشیں اُس کی تربیت بن جاتی ہیں، قید خانے عبادت گاہ، اور ظلمت کی راہیں نور کا دروازہ ثابت ہوتی ہیں۔ حضرت یوسفؑ کی تعبیر کا پہلا لمحہ وہی تھا جب غلامی کے شہر میں اُنہیں اختیار عطا ہوا، اور اُن کا ہر قدم ایک نورانی فیصلے کی جھلک بن گیا۔

اپنا عہدہ سنبھالتے وقت حضرت یوسفؑ کی عمر مبارک تیس برس تھی۔ خوشحالی کے سات سال شروع ہوئے۔ زمین وافر پیداوار دینے لگی۔ حضرت یوسفؑ خود ہر شہر گئے، اناج کو ذخیرہ کروایا، یہاں تک کہ غلہ اتنا جمع ہوا کہ حساب رکھنا بھی ممکن نہ رہا۔

قحط سے قبل کے ان برسوں میں حضرت یوسفؑ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ بی بی آسِناتھؓ کے بطن سے پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا تو حضرت یوسفؑ نے اُس کا نام “منسّیؓ” رکھا، تاکہ اُس دکھ کو یاد رکھیں جو بھائیوں نے دیا اور جسے ربّ نے نعمت میں بدل دیا۔

دوسرے بیٹے کا نام “افرائیمؓ” رکھا اس شکر کے ساتھ کہ ربّ نے اُسی مصر میں افراطِ نعمت عطا کی جہاں کبھی یوسفؑ نے غلامی اور تنہائی کا ذائقہ چکھا تھا۔

خوشحالی کے سات سال گزر گئے۔ قحط کی وحشت نے مصر اور اردگرد کی سرزمینوں کو گھیرا۔ لوگ بھوک سے بلبلاتے فرعون کے پاس آئے، اور فرعون نے انہیں کہا: “جاؤ، یوسفؑ سے کہو، وہ جو حکم دے، وہی کرو۔”

تب حضرت یوسفؑ نے سرکاری ذخیرہ خانے کھول دیے۔ اناج فروخت ہونے لگا۔ مصر کے علاوہ دیگر ملکوں کے لوگ بھی کھانے کی طلب میں مصر آنے لگے۔

کنعان میں حضرت یعقوبؑ نے بھی سنا کہ مصر میں اناج ہے۔ اپنے بیٹوںؓ سے فرمایا: “جاؤ، وہاں سے غلہ خرید کر لاؤ، ورنہ ہم بھوکے مر جائیں گے۔”

حضرت یعقوبؑ کے دسوں بیٹے مصر روانہ ہوئے، مگر حضرت بنیامینؓ کو ساتھ نہ لے جا سکے۔ حضرت یعقوبؑ کا دل اُس جدائی کا درد دوبارہ جھیلنے کو آمادہ نہ تھا۔ اور یوں وہی بھائی، جنہوں نے کبھی یوسفؑ کو کنویں میں پھینکا تھا، اب اُسی کے در پر محتاجی کے ساتھ آ رہے تھے مگر جانتے نہ تھے کہ تعبیر کا دروازہ کھل چکا ہے۔


شیخ سعدیؒ
دور شد از یوسف آن داغِ جُدا
چون ز قحط آمد برادر سویِ ما

تشریح:
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: “یوسفؑ کے دل سے جدائی کا زخم تب مٹنے لگا جب وہ بھائی جو جدا کر گئے تھے، خود قحط کے مارے اُس کے در پر آ گئے۔”
یعنی وقت وہی دکھ لاتا ہے جو زخم دیتا ہے، اور وہی مرہم بھی بن جاتا ہے۔ یہی قحط اُن بھائیوں کی جھکی ہوئی گردنوں کا ذریعہ بن گیا۔


نتائج

  1. تعبیر ہمیشہ وقت پر نازل ہوتی ہے – ربّ کی باتوں میں نہ جلدی ہے، نہ تاخیر، بلکہ صرف حکمت ہے۔
  2. آزمائش سے گزر کر جو صبر کرتا ہے، وہی منصب کا حق دار ہوتا ہے۔
  3. نعمت کا حق وہی ادا کرتا ہے جو دکھ میں بھی رب کا شکر بجا لاتا ہے۔
  4. ہر دکھ کے بعد جو نام رکھا جائے (جیسے منسّیؓ، افرائیمؓ)، وہ بندے کے شکر اور رب کی رحمت کی علامت ہوتا ہے۔
  5. جب قحط آتا ہے، تو رزق رب کے خزانے سے برآمد ہوتا ہے، اور اُس کے محبوب بندوں کے ہاتھ سے لوگوں تک پہنچتا ہے۔

اختتامی خیال
اس سبق میں ہمیں سکھایا گیا کہ صبر کرنے والا کبھی رسوا نہیں ہوتا، اور جو رب پر توکل کرتا ہے، وہ آزمائش کے بعد نعمت کی ایسی تعبیر پاتا ہے جو نسلوں کے لیے کفایت بن جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ نے جو صبر، حلم، شکر، اور تدبیر کے چراغ جلائے، وہ صرف مصر کو ہی روشن نہ کر گئے — بلکہ قیامت تک ہر اس دل کے لیے روشنی بن گئے جو ظلمت میں رب کو پکارتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔