سبق نمبر 2۔ خوشحالی اور قحط کے سال

اپنا عہدہ سنبھالتے وقت حضرت یوسفؑ کی عمر مبارک تیس سال تھی۔ خوشحالی کے سات سالوں میں جب زمین وافر مقدار میں فصل پیدا کرنے لگی تب حضرت یوسفؑ شہر شہر جا کر تمام اناج ذخیرہ خانوں میں جمع کرواتے رہے۔ غلہ اس قدر کثرت سے جمع ہوگیا کہ انبار کے انبار لگ گئے۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ حضرت یوسفؑ نے اس کا حساب کتاب رکھنا ہی چھوڑ دیا۔
قحط کے سال شروع ہونے سے پہلے حضرت یوسفؑ کے ہاں آپ کی بیوی بی بی آسِناتھؓ سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ پہلوٹھے بیٹے کی پیدائش پر اپنے رب کے حضور اظہارِ تشکر کے لئے کہ بھائیوںؓ سے ملنے والی تلخیاں اور وہ غلامی کی تکلیفیں سپردِ نیساں ہوگئیں حضرت یوسفؑ نے بڑے بیٹے کا نام مبارک “منسّیؓ” رکھا۔ چھوٹے کا نام مبارک حضرت یوسفؑ نے ” اِفرائِیمؓ” یہ سوچ کر رکھا کہ خدا تعالیٰ نے اس زمین پر آپ افراطِ نعمت سے نوازا جہاں کل تک آپ کے لئے ظلم وجبر ہی تھا۔
ملکِ مصر خوشحالی کے سات سال بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گئے۔ حضرت یوسفؑ کی پیش گوئی کے عین مطابق نہ صرف مصر بلکہ اِس کے چاروں اطراف میں شدید قحط پڑ گیا، تاہم مصر کے سرکاری ذخیرہ خانے اناج سے بھرے پڑے تھے۔ جب مصر میں لوگ بھوکے مرنے لگے تو وہ بلبلاتے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے کہ انہیں روٹی مہیا کی جائے۔ فرعون نے انہیں یہ حکم دیتے ہوئے حضرت یوسفؑ کی طرف بھیجنا شروع کردیا کہ تم سب وہی کرو حضرت یوسفؑ تم سے کہنے کو کہے۔ قحط پورے ملک پھیل کر شدید ترین ہوگیا تھا۔ بالآخر حضرت یوسفؑ نے تمام ذخیرہ خانے کھول کر عوام کو اناج بیچنے کا حکم جاری کیا۔ قحط کی شدت یہاں تک پہنچی کہ نہ صرف مصر بلکہ طول و عرض سے بھی لوگ اناج خریدنے کے لئے جوق در جوق حضرت یوسفؑ کے پاس آنے لگے۔
ادھر حضرت یعقوبؑ نے بھی سنا کہ مصر میں اناج ہے تو حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوںؓ سے فرمایا! میں نے سنا ہے کہ مصر میں اناج ہے۔ جاؤ وہاں سے اناج خرید کر لاؤ ورنہ ہم بھوکے مر جائیں گے۔
چنانچہ حضرت یوسفؑ کے دسوں بھائیؓ مل کر اناج خریدنے مصر کو روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے چھوٹے بیٹے حضرت بنیامینؓ کو اُن کے ساتھ جانے کی اجازت نہ دی کہ خدا نخواستہ وہ بھی حضرت یوسفؑ کی طرح کسی آفت کا لقمہ نہ بن جائے۔ یوں قحط کے مارے کنعانیون کے ہجوم میں جو اناج خریدنے مصر کو چلے جارہے تھے اُن میں حضرت یعقوبؑ کے بیٹےؓ بھی شامل تھے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔